راہِ خیال سے تو بہت قافلے گئے
لیکن سرائے خواب میں کوئی نہیں رہا
میرے سوا بھی عشق بہت سوں کو راس تھا
یوں مستقل عذاب میں کوئی نہیں رہا
کام آ گئے تمام ہی گوشہ نشینِ دل
ہستی کے انقلاب میں کوئی نہیں رہا
اٹھی تھی ایک پل ترے مجذوب کی نظر
سنتے ہیں پھر نقاب میں کوئی نہیں رہا
چارہ گراں ہزار تھے ، لاکھوں نیاز کیش
پر عین اضطراب میں کوئی نہیں رہا
چہرے پگھل پگھل کے ، ٹپکنے پہ آ گئے
سو دیدہِ سحاب میں کوئی نہیں رہا
روشن مکانِ دل کے دریچے کہاں سے ہوں
اس خانماں خراب میں کوئی نہیں رہا
کردار داستان میں تنہا نہیں تھا میں
لیکن سفر کے باب میں کوئی نہیں رہا
ناصر لگام چھوٹ گئی دستِ شوق سے
پائے جنوں رکاب میں کوئی نہیں رہا