رنج یہ ہے کہ ترے کھیل تماشے کے لیے
ہم کہ ناقابلِ تسخیر تھے ، تسخیر ہوئے
ہم خداوندِ سخن، نازِ سخن آرائی
جب ترے ہاتھ لگے خآک پہ تحریر ہوئے
ناز تھا خواب کی صنعت پہ ہمیں سو نہ رہا
صرف شرمندہ ہوئے خواب جو تعبیر ہوئے
کس قدر زعم تھا جب کھول رہے تھے بانہیں
پھر ہوا یوں کہ حوادث ہی بغل گیر ہوئے
گرد میں ڈوب گئے ہیں سرِ دیوار کہ ہم
اب ترے عہدِ فراموش کی تصویر ہوئے
تو نے ٹھکرا کے ہمیں عام کہانی لکھا
اپنی دانست میں ہم لوگ اساطیر ہوئے
تو نے خوف کے عالم میں ٹھکانہ چاہا
ہم ترے واسطے پھر راکھ سے تعمیر ہوئے