سرشارئ قسمت کو یہ انعام بہت ہے
پیش و پسِ احساس ترا نام بہت ہے
بندے کو نہیں خلعتِ شاہی کی ضرورت
بندے کو تری نعت کا احرام بہت ہے
آلام زدہ خاطرِ تسکین طلب کو
اِک نعت تری قاسمِ آرام ! بہت ہے
اِک موجِ نظر بہرِ طلب زارِ تجلی
اِک چشمِ کرمِ بار پئے خام ، بہت ہے
کیا نام و نسَب ، شان و شرَف ، عز و کرامت !
بَردے کو ، ترا ہونے کا اکرام بہت ہے
للہ ! مرا ہاتھ پکڑ لے مری قسمت
چل ، سوئے مدینہ مجھے یک گام بہت ہے
اِک دید ، فقط دید مرے ماہِ منور !
اِک خواب ، پسِ خواب ، پسِ بام بہت ہے
نکہت کو تری نعت کی تاثیرِ سحَر خُو
طلعت کو ترا نام سرِ شام ، بہت ہے
مقصودؔ مدینے کی ثنا گوئی کے صدقے
اُس شہر سے نسبت ہی کا اِعلام بہت ہے