سنہری جالی کی ضو فشانی کو مانتی ہیں مطاف آنکھیں
اسی کا اشکوں سے با وضو ہو کے کر رہی ہیں طواف آنکھیں
لگا کے امید در گزر کی ندامتوں سے جھکا کے پلکیں
درِ رسالت پہ کر رہی ہیں گناہ کا اعتراف آنکھیں
یہ عکسِ تاباں یہ روئے اطہر کوئی نہ دیکھے سوائے اِن کے
ترے تصور پہ ڈال دیتی ہیں آنسوؤں کا لحاف آنکھیں
میں اپنی آنکھوں کو دائمی روشنی کا رستہ دکھا رہا ہوں
رہیں گی روشن قدومِ سرور میں گر کریں اعتکاف آنکھیں
کبھی مرے خواب کے دریچے میں روشنی بن کے مسکرائے
وہ نور چہرہ جو تیرگی میں بھی دیکھ لیتی ہیں صاف آنکھیں
دیارِ اطہر کے ذرے ذرے کو یہ جو جھک جھک کے چومتی ہیں
تلاش کرتی ہیں گردِ راہِ محمدی کا غلاف آنکھیں
بسا ہے اشفاق جب نظر میں حسین گنبد کا سبز منظر
تو کیوں نہ کرتیں دھنک کے رنگوں سے دائمی انحراف آنکھیں