سُن کے اقرا کی صداساری فضا کیف میں ہے
چھو کے نعلینِ کرم غارِ حرا کیف میں ہے
آپ کے فیض سے ہے آج ملا رزقِ سخن
خامہ ہے جھوم اُٹھا حرفِ ثنا کیف میں ہے
خواب میں آپ کی ہو جائے زیارت مجھ کو
دلِ بے تاب کی یہ خاص دعا کیف میں ہے
روز و شب کرتی ہے جو گنبدِ خضرا کا طواف
مہکی مہکی یہ مدینے کی ہوا کیف میں ہے
گزرے سرکار جہاں سے وہ حسیں راہ گزر
چوُم کر آپ کے نقشِ کفِ پا کیف میں ہے
ہاتھ اُٹھتے نہیں بھر جاتے ہیں خالی دامن
آپ کے کوچے کا ہر ایک گدا کیف میں ہے
روشنی دیتا رہا آپ کی مدحت کی مجھے
ناز نے دل میں جلایا جو دیا کیف میں ہے