اردوئے معلیٰ

ہمارے پاس اگر وقت ہوتا لامحدود

فنا پذیر نہ ہوتا اگر ہمارا وجود

 

تو میری جان! ترا روٹھنا روا ہوتا

تری جھجک ، ترا شرمیلا پن بجا ہوتا

 

!بڑے سکوں سے ہم بیٹھے سوچتے، مری جاں

ہمیشگی کا یہ دورانیہ گزاریں کہاں ؟

 

تُو بحرِ سبز کے ساحل پہ سیپیاں چُنتی

شبِ خموش میں لہروں کی آہٹیں سُنتی

 

میں دور بیٹھا فقط تجھ کو دیکھتا رہتا

کبھی کبھار ترے حسن پر غزل کہتا

 

تجھے میں چاہتا تخلیقِ روح سے بھی قبل

قدیم عہد کے طوفانِ نُوح سے بھی قبل

 

ہمارے پاس اگر وقت ہوتا لامحدود

فنا پذیر نہ ہوتا اگر ہمارا وجود

 

تُو پھر بھلے مجھے رَد کرتی اک زمانے تک

شروعِ وقت سے عیسیٰ کے دار پانے تک

 

خدا گواہ مرا عشق مستقل رہتا

خوشی سے میں ترا انکار تا ابد سہتا

 

ترے لبوں کی ستائش میں سو برس کرتا

ہزار سال تری انکھڑیوں کا دم بھرتا

 

محبتیں کئی قرنوں کی مجھ میں بھر جاتیں

بہت سی صدیاں تجھے دیکھتے گزر جاتیں

 

کہ تیرا حسن انہی شدتوں کا ہے حقدار

اور اس سے پست نہیں میرے عشق کا معیار

 

مگر میں سُنتا ہوں دن رات موت کی آہٹ

عجب ہے مرگ کے شُعلے کی تیز گرماہٹ

 

کفن میں باقی رہے گا نہ تیرا حسن و جمال

نہ قبر میں مجھے آئے گا عاشقی کا خیال

 

ہمارے جسم تہہِ خاک جونہی جائیں گے

تو حسن و عشق کو کیڑے مکوڑے کھائیں گے

 

سو جب تلک ہے ترے چشم و لب کا رنگ جواں

جہاں تلک ہے مری جستجو کے شعلے میں جاں

 

منائیں خواہش و خواب و خیال کا تہوار

گلے مِلیں کہ ابھی اوج پر ہے رنگِ بہار

 

حیات جتنی بھی تھوڑی ہے بس غنیمت ہے

مِلی جو مُہلتِ یک دو نفس ، غنیمت ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات