شمع دیں کی کیسے ہو سکتی ہے مدہم روشنی
بزمِ طیبہ میں برستی ہے جھماجھم روشنی
خاک پائے شاہ کو سرمہ بنا لیتا ہوں میں
میری آنکھوں میں کبھی ہوتی ہے جب کم روشنی
نورِ مطلق کے قریں بے ساختہ پہنچے حضور
روشنی سے کس قدر ہوتی ہے ِمحرم روشنی
نقش پائے شہ کی ہلکی سے جھلک ہے کارگر
کیسے ہو سکتی ہے مہر و مہ کی مدہم روشنی
گیسوئے پاک ان کے برہم ہو کے بھی برہم نہیں
ورنہ ہر عا َلم کی ہو جائے گی برہم روشنی
شام اسریٰ مٹ گئی تفریق محبوب و محب
روشنی میں اس طرح ہوتی ہے مدغم روشنی
ہجر حضرت میں جہاں بھی کچھ اندھیرا چھائے گا
آنسووں سے مانگ لے گی چشم پُرنم روشنی
پانی پانی ہو ابھی ہجر شہِ ُکل میں صبیحؔ
میرے اشکوں کی جو دیکھے چاہِ زم زم روشنی