شمیم پھیل رہی ہے اب اس صداقت کی
حسینؓ ابن علیؓ سے جو ہو گئی منسوب
اب اس کی ذات جہاں میں بلند قامت ہے
کہ جس کی ذات ہر اِک دور میں رہی محبوب
ثبات و عزم کا مینارۂ بلند حسینؓ
حصارِ وقت میں جو ہو نہیں سکا محدود
وہ آفتاب جو ہر لمحہ تیرگی کے لیے
رہِ حیات ہر اِک سمت سے کرے مسدود
گلاب اس کی صداقت کے ہر خیاباں میں
کھِلے ہیں ایسے کہ ہر راہ، گل بداماں ہے
پیام اس کا ہے کرنوں کا ایک سرمایہ
اُسی پیام سے ہر راہ میں چراغاں ہے
گرا کہ خیمۂ جاں خود جو بڑھ گیا آگے
ہمیشہ اس کے ہی پرچم جہاں میں لہرائے
وہ جس نے کھولے ہیں اس طرح در صداقت کے
ہوا جہاں میں اُسی کی شمیم پھیلائے
عزیمتوں کا پیمبر حسین ابن علیؓ
حسین ابنِ علیؓ شہرِ حُرِّیَت کا امیں
دیارِ عزم و عمل کا ہے تاجدار وہی
ملا حیات کی سچائیوں کو اس سے یقیں
مثالِ نجم و قمر اس کے نقشِ پا چمکیں
ملے حیات جو سچائی کو، بنے جگنو
اسی کا نام بنے قلب بطنِ گیتی میں
اسی کے ذکر سے دوڑے رگوں میں تازہ لہو
وہ نذرِ گل ہو کہ نذرانۂ سخن ہو عزیزؔ
حسین ابن علیؓ کے لیے ہے بے وقعت
عمل کے پھول کھلائے کچھ اس طرح اس نے
کہ پھیلتی ہی رہے گی حسینؓ کی نکہت