صد شُکر کہ ہم نعت سے منسوب ہُوئے ہیں
غالب سے سخنور جہاں مغلوب ہُوئے ہیں
جو آپ سے پہلے تھے وہ سب خاص و چُنیدہ
اے ختمِ رسل ! آپ تو محبوب ہُوئے ہیں
وہ چاند ستارے تھے، رہے شب میں فروزاں
اِک مہر کا آنا تھا کہ محجوب ہُوئے ہیں
کیا صُحبت و نسبت کا تھا فیضانِ تغیّر
جو عام تھے وہ خاص سے پھر خُوب ہُوئے ہیں
مدحت کے سُخن زار کے شایاں کہوں جن کو
وہ شعر ہُوئے ہیں نہ وہ اسلوب ہُوئے ہیں
بھیج ان کی طرف پھر سے کوئی خواب مسیحا
جو لوگ ترے ہجر کے مصلوب ہُوئے ہیں
بخشے مجھے سرکار نے بُوصیری کے صدقے
جب حرف، ثنا کے مجھے مطلوب ہُوئے ہیں
لایا ہُوں ترے در پہ، شفاعت کی نظر کر
اعمال کے دفتر مرے معیوب ہُوئے ہیں
مدحت نے نوازے ہیں نئے رنگ کے منظر
موسم مرے حرفوں کے بھی مرطوب ہُوئے ہیں
ممکن ہو تو اب نعت، کوئی خامشی سوچے
مقصودؔ سُخن جتنے تھے، مرعوب ہُوئے ہیں