صد شکر ذوق وشوق سے کہتے ہیں نعت ہم
کرتے ہیں عشقِ سرورِ عالم کی بات ہم
اے کاش ! کہہ سکیں درِ اقدس کے سامنے
آقا ! فراق کی بھی گزار آئے رات ہم
احساس کی زبان عطا ہو تو کر سکیں
اشعار میں بیان دلی کیفیات ہم
نعتوں میں ہجرِ طیبہ کا آہنگ آگیا
کرنے چلے تھے عرض نئے کچھ نکِات ہم
افسوس اُسوۂ شہِ والا کو چھوڑ کر
کھاتے ہیں ہر قدم پہ زمانے سے مات ہم
احسنؔ! شتاب عزمِ عمل چاہیے کہ ہیں
لوحِ جہاں پہ نقش بہت بے ثبات ہم