ہے ملک میں جو تیزی رفتارِ ولادت
آزردہ و آشفتہ ہیں اربابِ حکومت
کہتے ہیں کہ محدود ہے سامانِ معیشت
اب ملک میں انساں کی نہیں اور ضرورت
آئے نہ کہیں فاقوں سے مر جانے کی نوبت
ہے قوم پہ لازم عملِ ضبطِ ولادت
میداں میں نکل آئے ہیں کچھ عالمِ دیں بھی
ثابت اسے کرتے ہیں جو از روئے شریعت
تحریر سے تقریر سے تصویر کے ذریعے
ہے درس کہ ہے کثرتِ اولاد مصیبت
بد حال یہ کنبہ ہے تو خوشحال وہ کنبہ
سمجھاتے ہیں یوں فلسفۂ کثرت و قلت
انساں یہ چلا جائے عدم ہی سے عدم کو
سو طرح کی تدبیر ہے سو طرح کی حکمت
ہر جا پہ شفا خانوں میں ملتی ہیں دوائیں
بے فیس کے ہر قسم کی ملتی ہے ہدایت
سرجن کی ضرورت ہو تو سرجن بھی ہے حاضر
ہے نرس بھی ہر لحظہ کمر بستۂ خدمت
لبیک کہا قوم کے افراد نے افسوس
خوش آئی جو سرکار کی یہ پند و نصیحت
محروم ہوئے آلۂ تولید سے جا کر
کچھ مرد و زن ایسے بھی نکل آئے صد حیرت
میں کانپ اٹھا دیکھ کے یہ پستی ایماں
لے آئی مسلماں کو کہاں گردشِ دوراں
دل ورطۂ حیرت میں خرد سر بہ گریباں
ہے رخنہ گرِ مسئلۂ حکمتِ یزداں
اک دانے سے سو دانے نکلتے ہوئے آئے
بڑھتی ہوئی آئی ہے یہ دنیا اسی عنواں
پیدائشِ انساں ہے باندازۂ خالق
انساں کو ہوا کیا جو ہے بے وجہ پریشاں
رزاقی انساں کا جنوں کیوں ہے بشر کو
اللہ کے بندوں کا ہے اللہ نگہباں
کیا سورہ الحمد بھی اب یاد نہیں ہے
یا بھول گیا معنی دیباچۂ قرآں
ہے قاضی حاجات جو ہے خالقِ عالم
کیوں تو متفکر ہے ز پیدائشِ انساں
آ تجھ کو دکھاتا ہوں میں آئینۂ ماضی
خالی نہیں اس باب سے تاریخِ مسلماں
تھی عزل کی تدبیر کبھی ملکِ عرب میں
افلاس کا ڈھونڈا تھا انہوں نے بھی یہ درماں
مشکوک تھا نظروں میں جو آپ اپنا عمل یہ
دربارِ نبی میں گئے اصحابِ ثنا خواں
پوچھا عملِ عزل کی بابت جو نبی سے
گویا ہوئے یوں ختمِ رسل صاحبِ قرآں
اللہ کی تقدیر میں ارواح ہیں جتنی
پیدا انہیں ہونا ہے بہر صورت و عنواں
تم محترزِ وصلتِ ازواج بھی گر ہو
ہو گا نہ مفر پھر بھی ز پیدائشِ طفلاں
فرمودۂ محبوبِ خدا سن کے ہوئے چپ
دل ان کے ہوئے نورِ حقیقت سے فروزاں
باز آ کہ نظرؔ اب بھی گیا وقت نہیں کچھ
یہ شمع ہدایت ہے اگر تو ہے مسلماں