طائِف میں ایک نُور کا پیکر لہُو لہُو
یا کربلا میں دیکھا ہے خنجر لہُو لہُو
کربل کتھا کا ہم کو ذرا حوصلہ نہِیں
ہوتا ہے دِل ہی داستاں سُن کر لہُو لہُو
سر شاہ کا جُدا تو کیا ہے لعِین نے
محوِ کلام نیزے پہ ہے سر لہُو لہُو
دیکھا ہے جب سے چشمِ تصوُّر سے کربلا
جنگل لہُو ہے، دشت لہُو، گھر لہُو لہُو
رکھتا ہُوں ضبط آنکھ پہ ذکرِ حسین پر
کرتا مگر ہُوں دِل کو میں اکثر لہُو لہُو
دربار میں جو بِیبیاں بے چادروں کے تِھیں
بے چارگی میں ہو گا وہ منظر لہُو لہُو
نہرِ فراتؔ آج بھی حسرتؔ اُداس ہے
حُرملؔ نے تِیر داغا، ہے اصغرؔ لہو لہو