عاصیوں کو در تمھارا مل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانہ مل گیا
فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی
مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا
کشف راز من رانی یوں ہوا
تم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا
نا خدائی کے لیے آئے حضور
ڈوبتوں نکلو سہارا مل گیا
آنکھیں پُرنم ہوگئیں سر جھک گیا
جب ترا نقشِ کفِ پا مل گیا
خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن
مجھ کو صحرائے مدینہ مل گیا
ان کے طالب نے جو چاہا پا لیا
ان کے سائل نے جو مانگا مل گیا
اے حسنؔ فردوس میں جائیں جناب
ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا