آج معروف نقاد، مورخ ، ڈرامہ نویس ، مترجم اور شاعر عشرت رحمانی کا یوم پیدائش ہے
——
عشرت رحمانی 16 اپریل، 1910ء کو ریاست رام پور، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
عشرت رحمانی کااصل نام امتیاز علی خاں تھا۔ انہوں نے 100 سے زیادہ کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں بیشتر تاریخی اور سوانحی موضوعات پر ہیں۔ انہوں نے اردو ڈرامے کی تاریخ اور تنقید پر بھی بڑا وقیع کام کیا اور اردو ڈراما کا ارتقا اور اردو ڈراما: تاریخ و تنقید تحریر کیں۔ عشرت رحمانی کی خودنوشت سوانح عمری عشرت فانی کے نام سے اشاعت پزیر ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے تاریخ کے موضوع پر تاریخِ سیاست ملی، ہماری آزادی کی کہانی (پانچ جلدیں)، شہیدِ ملت اور دیگر کتب بھی تالیف کیں۔ انہوں نے آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں کو آغا حشر کے ڈرامے کے نام سے پانچ جلدوں میں مرتب کیے۔ تراجم میں ایک حمام میں، سُورج کے ساتھ ساتھ سرِ فہرست ہیں۔
——
تصانیف
——
عشرت فانی (خود نوشت سونح عمری)
اردو ڈراما کا ارتقا (تنقید)
اُردو ڈرامے کی تاریخ و تنقید (تنقید)
تاریخِ سیاست ملی (تاریخ)
ہماری آزادی کی کہانی (پانچ جلدیں)
آغا حشر کے ڈرامے (پانچ جلدیں، ترتیب)
شہیدِ ملت (سوانح)
بہادر شاہ ظفر (سوانح)
مرزا غالب (سوانح)
حیاتِ جوہر (سوانح)
اکابرین سیاست (سوانح)
برادرانِ ملت (سوانح)
انوکھا سنسار (ڈراما)
دکھیا سنسار (ڈرامے)
شا ہجہاں (ڈراما)
آغا حشر (سوانح)
پرستان
اونچے نشاں والے
دونوں جہاں والے
ایک حمام میں (ترجمہ)
سُورج کے ساتھ ساتھ (ترجمہ)
تیرے گیت (گیت،نغمے اور ترانے)
ڈرامے چند (ڈرامے)
اسلامی تہذیب و تمدن (تاریخ)
سن ستاون (تاریخ)
اٹھارہ سو ستاون کے مسلمان مجاہد (تاریخ)
سرسید سے قائد اعظم تک (سوانح)
معلم اخلاق
نشتر (ناول، ترتیب)
——
یہ بھی پڑھیں : عشرت رحمانی کی تمام نگارشات
——
وفات
عشرت رحمانی 20 مارچ، 1992ء کو کراچی میں وفات پا گئے اور کراچی میں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے
——
فریاد کی لَے از عشرت رحمانی : کتاب ، سرودِ رفتہ
——
ہندوستان اور پاکستان آزاد و آباد ہیں اور دونوں مملکتوں کی ادبی مجالس بھی نئے انداز سے قائم اور آباد ہیں ۔ قدامت کی روایت اور جدت کی ندرت شیر و شکر بنی ہوئی صف بہ صف جاری و ساری ہیں ۔ میں اپنے ان ” افکارِ پریشاں ” کو انہی کیفیات و تاثرات کی نذر کر رہا ہوں ۔
میرے افسانے ، ڈرامے ، ناول ، تنقیدیں اور دوسرے علمی و ادبی مضامینِ نثر اربابِ ذوق کے ملاحظہ سے وقتاََ فوقتاََ گذر چکے ہیں ۔ منظوم افکار ، کی مجموعی اشاعت کا خیال مجھے اب تک کبھی نہ آیا ۔ اور شاید آئندہ بھی کبھی نہ آتا لیکن کراچی میں قیام کے دوران چند مخلصین بالخصوص سیدی ذولفقار علی بخاری کی "بزمِ ادب ” نے بھولی ہوئی یادِ سخن پھر تازہ کر دی ۔ محترم و مکرم بخاری صاحب کا قدیم اخلاص اوراقِ سخن ماضی و حال کی تابندگی کا باعث بن کر اس خیال کا محرک ہوا کہ چند بے ربط افکار شعری منتخب و مرتب کر کے محفوظ کر لوں ۔
یہ افکارِ پریشاں اگر اربابِ ذوق کی توجہ کا ذریعہ بن سکیں تو ان کی اپنی پسند ، ورنہ میں نے اب تک ذی فہم و سخن داں حضرات سے اپنے رطب و یابس کی کافی داد پا لی ہے ۔
میں اپنی گناہِ شاعری کی عذر خواہی نہ کروں تو نامناسب نہ ہو گا ۔ اس لیے دوسروں کے قلم سے تعریف و تعارف کو جائز نہیں سمجھتا ۔
"اپنی گور اپنے انگارے ” میں جو لذت ہے وہ ” رفتن پائے مردیٔ ہمسایہ در بہشت ” میں کہاں ۔
میری شعر و ادب کی زندگی کا آغاز 1965ء سے ہوا ۔ خدمتِ ادب پر مامور ملک کے مشاہیر شعراء و ادباء کے خلوص و یگانگت سے کیف بار و مستفید ہوتا رہا ۔ اور ان سے دادِ سخن پائی ۔
اپنی سخن گوئی سے زیادہ نادم ہوں کہ بہت کچھ کھو چکا اور جو باقی ہے وہ پیش کر رہا ہوں ۔
——
میں نے جو بنائے تھے کچھ نقش محبت کے
اب چارہ گروں نے وہ رنگین بنا ڈالے
——
منتخب کلام
——
اے نگاہِ ناز تیری بزم میں لایا ہوں
آج اس دل کو جو برقِ طور کا قائل نہیں
——
آغاز کا کچھ فکر نہ خوفِ انجام
ہے وجہِ سکوں ایک فقط تیرا نام
——
چپہ چپہ رشکِ جنت ، ذرہ ذرہ مے خانہ
گلشن گلشن دورِ بہاراں ایک ترے آ جانے سے
——
ہجر کی ایک رات ختم ہوئی
موت تھی یا حیات ختم ہوئی
——
دل ہی نہیں تو دل کے سہاروں کو کیا کروں
جب پاس تم نہیں تو بہاروں کو کیا کروں
جلووں سے جس کے چاند ستاروں میں تھی ضیاء
اب وہ ہنسی نہیں ستاروں کو کیا کروں
——
اپنی فطرت سے الجھنا تو سمجھ کر عشرتؔ
سخت دشوار ہے انسان کا انساں ہونا
——
بتاؤں کیا کہ مٹایا ہے کیا محبت نے
یہ مختصر ہے کہ عہدِ شباب ہی نہ رہا
——
درد سا پہلو میں ہے اور دل میں ہلکی سی خلش
ہم نشیں یہ تو بتا آخر مجھے کیا ہو گیا
دیکھنا بیگانگیٔ اہلِ عالم دیکھنا
وہ جدا جب سے ہوئے دشمن زمانہ ہو گیا
——
نظر فروز ہے منظر بہار ہے ساقی
کہ تیرا جلوہ رخِ لالہ زار ہے ساقی
سرور و کیف بھی ایسا ہی کچھ عطا کر دے
کہ جیسے تشنہ لبی کی پکار ہے ساقی
——
جلوؤں کا تصادم کیا کہیے ، یوں شعلہ و شبنم ہوتا ہے
ہے درد دوائے الفت بھی اور غم کا ہمدم ہوتا ہے
تم عشق مجھے سمجھاتے ہو ، میں جانتا ہوں میں مانتا ہوں
تعبیر ہے جس کی رنج و الم ، وہ خواب یہ ہمدم ہوتا ہے
ساحل پہ کھڑے ہیں حیرت سے جو ان کو خبر کیا طوفاں کی
ان بے چاروں کا حسرت میں دامن ہی پُرنم ہوتا ہے
اس راہ نوردی کے قرباں ، اس کی ہر مشکل کے صدقے
جس منزل کا ہر ایک قدم منزل سے مقدم ہوتا ہے
اب یا، درِ زنداں کھل جائے یا موجِ بہاراں ٹوٹ پڑے
دشتِ وحشت میں موسمِ گل دیوانوں کا ماتم ہوتا ہے
وہ اُجڑے یا آباد رہے دل تو دل ہی ہے خدا رکھے
یہ بُت خانہ ہو یا کعبہ ، رُتبہ میں کہاں کم ہوتا ہے
تجھ سے غفلت کی امید نہیں ، کیا تیرے کرم سے بعید نہیں
ہاں دل کو نوازش پر شک ہے ، کچھ درد جو کم کم ہوتا ہے
زاہد کی نیت کچھ بگڑی ہے جو بگڑی بگڑی باتیں ہیں
ساقی کو نظر لگ جائے گی مجھ کو تو یہ غم ہوتا ہے
پُر کیف جوانی کا نغمہ ، شرمیلی نظر ، تیکھے تیور
جو دل کے تار ہلا ڈالے ، یہ کون سا سرگم ہوتا ہے
لب تک جو ہلے سکھ سے کبھی یوں زلفِ پریشاں بل کھائی
یہ ناز تو حسن کو زیبا ہے ، کیا عشق بھی برہم ہوتا ہے
میں اُن کی نظر سے سنتا ہوں اپنی ہی نظر کا افسانہ
اے اہلِ خرد ، اے اہلِ جنوں ، یہ کونسا عالم ہوتا ہے
——
ان سے مل کر بچھڑی نظریں بن کے مقدر پھوٹ گیا
اُن کے ہاتھوں کھیل میں آخر دل کا کھلونا ٹوٹ گیا
افسانہ ہے جلوۂ ساقی ، ہائے کہاں اب بادۂ ساقی
کش مکشِ اندوہِ وفا میں ہاتھ سے ساغر چھوٹ گیا
غنچے چٹکے دیکھ نہ پائے ، پھول کھلے سب نے دیکھے
گلشن گلشن عام ہے شہرت کلیوں کا دل ٹوٹ گیا
دورِ بہاراں آئے نہ آئے ، روئے نگار نہ جلوہ دکھائے
رنگِ محفل ! اب وہ کہاں پیمانۂ دل ہی ٹوٹ گیا
تم سے شکایت کس کو؟ مجھ کو ؟ رہنے دو کچھ بات بھی ہو
میں نے باندھا عہدِ محبت ، تم نے توڑا ٹوٹ گیا
جان پہ ہم نے کھیل کے عشرتؔ بازیٔ عشق کو جیت لیا
اب کیا پروا ، اب کیا غم ، گر سارا عالم چھوٹ گیا
——
کعبہ جانا لاحاصل ، ناحق دِیر پرستی ہے
چشمِ بصیرت وا ہے اگر ، کعبہ دل کی بستی ہے
بھول بھی جاؤ جانے دو میری وفا اور اپنی جفا
تم پر کیا الزام مرے شوق کی کوتاہ دستی ہے
رات کی تاریکی میں جب یاد کسی کو کرتا ہوں
دل کے ظلمت خانے میں اک بجلی سی ہنستی ہے
اک پیری صد عیب نہیں اک پیری اور لاکھوں عیب
دیکھ سفیدی بالوں کی صبحِ پیری ہنستی ہے
دنیا والو مفلس کی حالت پر کیا ہنستے ہو
اس کی ہستی کچھ نہ سہی ، دنیا کی کیا ہستی ہے
جنسِ محبت کی قیمت اہلِ باطن سے پوچھو
اہلِ ظاہر کیا جانیں ، کیا مہنگی کیا سستی ہے
ایک ہی جلوے کی قیمت ہے عشرتؔ ایمانِ نورِ دل
جن داموں بھی مل جائے چیز نہایت سستی ہے
——
صدائیں آ رہی ہیں کچھ گُلوئے نیم بسمل سے
کوئی سُن کر یہ افسانہ کہیں کہہ دے نہ قاتل سے
کبھی اک اشکِ خوں گشتہ ، کبھی اک آہِ افسردہ
نکل آئے ہیں دل کے راز کس کس رنگ میں دل سے
نظامِ عالمِ الفت کہیں برہم نہ ہو جائے
ذرا کچھ سوچ کر ہم کو اٹھانا اپنی محفل سے
مآلِ لذتِ آزار ہیں بربادیاں میری
نہ کچھ تقدیر سے شکوہ ، شکایت ہے نہ قاتل سے
سفر میں دوستو یادِ روش بھی اک قیامت ہے
کہ اکثر گھر پلٹ آتا ہوں میں جا جا کے منزل سے
کوئی ناکامِ حسرت ڈوبتا ہے وائے ناکامی
لپٹ کر رو رہی ہے بے کسی آغوشِ ساحل سے
——
نظم : عہدِ وفا
——
تم مجھ کو بھلا دو ، جانے دو
ہر وقت کی باتیں ختم ہوئیں
وہ لطف کی راتیں ختم ہوئیں
جیسے برساتیں ختم ہوئیں
رُت آتی جاتی رہتی ہے
یوں وقت کی دھارا بہتی ہے
آخر دنیا دکھ سہتی ہے
مجھکو بھی یونہی غم کھانے دو
تم مجھ کو بھلا دو ، جانے دو
تم دور رہو ، مجبور ہوں میں
تم شاد رہو ، رنجور ہوں میں
دل کے زخموں سے چُور ہوں میں
روتے کو ہنسایا تھا تم نے
غم میرا بھلایا تھا تم نے
جلتی کو بجھایا تھا تم نے
پھر جلتا ہوں ، جل جانے دو
تم مجھ کو بھلا دو ، جانے دو
جب آنکھ ملائی تھی تم نے
اک آس بندھائی تھی تم نے
بگڑی سی بنائی تھی تم نے
اب تم نے نظر مجھ سے پھیری
یہ میری خطا ، قسمت میری
کہہ دو کہ نہیں ہوں میں تیری
ہاں عہدِ وفا کو بھلانے دو
تم مجھ کو بھلا دو ، جانے دو