علی الدوام وجود و قیام ہے اس کا
نہ ابتدا ، نہ کوئی اختتام ہے اس کا
اک ایک ذرہ ہے مصروف کار پردازی
کچھ اس طرح سے منظم نظام ہے اس کا
اسی سے گلشن عالم میں ہے بہار و خزاں
اسی کا نورِ سحر ، رنگ شام ہے اس کا
اگر نظر ہے؟ تو اک اک کرن میں اسکی خبر
خرام باد صبا میں پیام ہے اس کا
ہماری فہم و خرد سے بعید اس کے امور
محال امر کو حل کرنا کام ہے اس کا
وہ بے زبان کو بخشے سخن وری کے گہر
اسی کا ملک نوا ہے ، کلام ہے اس کا
ہزار شکر جو محبوب رب اکبر ہے
لبوں پہ نورؔ کے ہر وقت نام ہے اس کا