عُشاق اُٹھ رہے ہیں ترے در کی خاک سے
ائے سجدہ گاہِ حسن ، زرا مل تپاک سے
طاقوں میں پھڑپھڑانے لگی مشعلوں کی لوء
دل کانپنے لگے ہیں محبت کی دھاک سے
یوں تو اُڑی ہے نیند ، مگر غم کسے رہا
یہ رتجگے تو اور بھی ہیں خوابناک سے
ہنس کر گلے لگاو تو عریانیاں چھپیں
دامان مل چکے ہیں گریباں کے چاک سے