غریبوں کی جو ثروت ہیں ، ضعیفوں کی جو قوت ہیں

انہیں عالم کے ہر دکھ کی دوا کہنا ہی پڑتا ہے

انہیں فرماں روائے انس و جاں کہتے ہی بنتی ہے

انہیں محبوبِ ربِ دوسرا کہنا ہی پڑتا ہے

زہے تاثیر ، ان کا نام نامی جب لیا جائے

لبوں کو لازما صلِ علی کہنا ہی پڑتا ہے

جہاں بھر کو کیا سیراب جن کے فیضِ بے حد نے

انہیں دریائے الطاف و عطا کہنا ہی پڑتا ہے

کیا بیڑا جنہوں نے پار آ کر نوع انساں کا

انہیں انسانیت کا نا خدا کہنا ہی پڑتا ہے

جنہوں نے بزم امکاں سے مٹائی کفر کی ظلمت

انہیں تنویرِ حق ، نور الہدیٰ کہنا ہی پڑتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]