غم سے اُمّت نڈھال ہے آقا
اک نظر کا سوال ہے آقا
سُو بسُو ہیں مصیبتیں رقصاں
کُو بکُو اک زوال ہے آقا
آج مسجد کے امن مرکز پر
کیسا ٹوٹا قتال ہے آقا
خونِ مسلم ہے جا بجا ارزاں
کتنا ابتر یہ حال ہے آقا
جورو ظلم و ستم کے ہاتھوں سے
اب تو جینا محال ہے آقا
کربلائے جدید برپا ہے
اب وسیلہ بس آل ہے آقا
سخت نادم ہے کیا کرے نوری
دل پہ طاری ملال ہے آقا