قبا گلوں کی ہے پہنے ترا خیال حسین

ہے عکسِ رحمتِ عالم ترا جمال حسین

منار عزم و تحمل کی زندگی تو ہے

ترے کمال کا پرتو ہے ہر کمال حسین

تہی ہے دامن امید اک زمانے سے

نگاہِ فیض اثر کا گہر اچھال حسین

یہ کس نے کہہ دیا میداں میں تو اکیلا تھا

تھا صبر تیغ ، شجاعت تھی تیری ڈھال حسین

مجھے جواب میں لطف و عطا کے پھول ملے

ترے کرم سے کئے میں نے جب سوال ، حسین!

ہے کس کی تشنہ لبی سے نہال دیں سرسبز

ہے کون زخمِ شریعت کا اندمال ؟ حسین

وفا کنیز ہے تیری تو حوصلے خادم

کہاں سے لائے گا کوئی تری مثال ،حسین

سپاہِ ظلم و جفا کے قدم اکھڑنے لگے

جدھر پھری ہے تری چشمِ پرْ جلال حسین

خلوص و امن، مساوات و حریت کا سبق

پڑھا رہی ہے زمانے کو تیری آل حسین

ہر ایک لمحۂ موجود کہہ رہا ہے یہی

صدی تری ہے ، تری بزم ماہ و سال حسین

جنابِ اکبر و اصغر کے صدقے کردو کرم

صدف کا دل ہے بہت آج پر ملال حسین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]