قصیدہ در مدح امام ہشتم علی رضا ابن موسی کاظم مدفون در مشہد۔ ایران
اس قصیدے کا سہرا بہت پیارے شاعر توقیر تقی کے سر جاتا ہے جنہوں نے عہد حاضر کے بین الاقوامی شہرت کے حامل قادرالکلام اور ممتاز شاعر برادر محترم سرکار جناب جاوید صبا صاحب کو اس صنف سخن کی طرف مائل کیا اور ایک محفل مقاصدہ میں پڑھنے کا بھی موقع فراہم کیا۔قلم برداشہ جو کچھ ممکن ہو سکا وہ ہم بصد احترام صاحبان علم کی نذر کرنے کا اعزاز حاصل کر رہے ہیں۔ جناب جاوید صبا صاحب نے بہت مہارت سے اس مختصر قصیدے میں اس کے تمام بنیادی اجزا یعنی تشبیب گریز مدح اور دعا کا حق ادا فرمادیا ہے۔ اجرکم اللہ
——
ظفر معین بلے جعفری
——
ابر نے چہرہ چھپا یا جو بیابانی کا
دشت نے ہاتھ بٹایا نہیں ویرانی کا
باد و باراں کی طنابوں سے جو موتی اچھلے
موج سرکش نے ارادہ کیا طغیانی کا
عقل سودائی ہوئی سود و زیاں کے مابین
عشق نے سوگ منایا نہیں حیرانی کا
ایسی پھینکی گئی خلوت سے تدبر کی کمند
صید صیاد ہوا صبر کے زندانی کا
بحر زخار کہ تہہ میں تھا نجف کا موتی
کوئی ہم سر نہ ہوا اس کی درخشانی کا
رو برو ہو جو کوئی دشت مودت کا غزال
لطف آتا ہے قصیدے میں غزل خوانی کا
بند کرنا پڑا کوزے میں سخن کا دریا
کام لینا پڑا قلت سے فراوانی کا
بیت ہشتم سے بھی مطلع کی سند ملتی ہے
نقش اول کا جو نقشہ ہے وہی ثانی کا
وہ مسافر جو مسافر کی ضمانت لے لے
وہ ستارہ کہ جو ضامن ہو نگہبانی کا
وہ تونگر کہ جو سائل کا نہ چہرہ دیکھے
وہ جو سایہ بھی نہ پڑنے دے پشیمانی کا
وہ جو دل کھول کےبے خوف دلیلیں باندھے
وہ جو منہ بند کرےفتنہ سلطانی کا
وہ تحمل کہ شکن تک نہ ہو پیشانی پر
وہ سوالات کہ دل چیر دیں ایقانی کا
برد باری ہے کہ جیسے کبھی جھیلا ہی نہ ہو
ایک لمحہ بھی مصائب میں پریشانی کا
از مدینہ تا نجف کرب و بلا تا بہ دمشق
ہے بپا معرکہ درویشی و سلطانی کا
حکم چلتا نہیں شاہوں کا دیار دل میں
سکہ چلتا ہے مدینے کے خراسانی کا
ہاتھ اٹھے ہیں دعا کو تو صبا شرم نہ کر
تذکرہ کر تو سہی بے سرو سامانی کا
اس قصیدے کا سہرا بہت پیارے شاعر توقیر تقی کے سر جاتا ہے جنہوں نے عہد حاضر کے بین الاقوامی شہرت کے حامل قادرالکلام اور ممتاز شاعر برادر محترم سرکار جناب جاوید صبا صاحب کو اس صنف سخن کی طرف مائل کیا اور ایک محفل مقاصدہ میں پڑھنے کا بھی موقع فراہم کیا۔قلم برداشہ جو کچھ ممکن ہو سکا وہ ہم بصد احترام صاحبان علم کی نذر کرنے کا اعزاز حاصل کر رہے ہیں۔ جناب جاوید صبا صاحب نے بہت مہارت سے اس مختصر قصیدے میں اس کے تمام بنیادی اجزا یعنی تشبیب گریز مدح اور دعا کا حق ادا فرمادیا ہے۔ اجرکم اللہ
——
ظفر معین بلے جعفری
——
ابر نے چہرہ چھپا یا جو بیابانی کا
دشت نے ہاتھ بٹایا نہیں ویرانی کا
باد و باراں کی طنابوں سے جو موتی اچھلے
موج سرکش نے ارادہ کیا طغیانی کا
عقل سودائی ہوئی سود و زیاں کے مابین
عشق نے سوگ منایا نہیں حیرانی کا
ایسی پھینکی گئی خلوت سے تدبر کی کمند
صید صیاد ہوا صبر کے زندانی کا
بحر زخار کہ تہہ میں تھا نجف کا موتی
کوئی ہم سر نہ ہوا اس کی درخشانی کا
رو برو ہو جو کوئی دشت مودت کا غزال
لطف آتا ہے قصیدے میں غزل خوانی کا
بند کرنا پڑا کوزے میں سخن کا دریا
کام لینا پڑا قلت سے فراوانی کا
بیت ہشتم سے بھی مطلع کی سند ملتی ہے
نقش اول کا جو نقشہ ہے وہی ثانی کا
وہ مسافر جو مسافر کی ضمانت لے لے
وہ ستارہ کہ جو ضامن ہو نگہبانی کا
وہ تونگر کہ جو سائل کا نہ چہرہ دیکھے
وہ جو سایہ بھی نہ پڑنے دے پشیمانی کا
وہ جو دل کھول کےبے خوف دلیلیں باندھے
وہ جو منہ بند کرےفتنہ سلطانی کا
وہ تحمل کہ شکن تک نہ ہو پیشانی پر
وہ سوالات کہ دل چیر دیں ایقانی کا
برد باری ہے کہ جیسے کبھی جھیلا ہی نہ ہو
ایک لمحہ بھی مصائب میں پریشانی کا
از مدینہ تا نجف کرب و بلا تا بہ دمشق
ہے بپا معرکہ درویشی و سلطانی کا
حکم چلتا نہیں شاہوں کا دیار دل میں
سکہ چلتا ہے مدینے کے خراسانی کا
ہاتھ اٹھے ہیں دعا کو تو صبا شرم نہ کر
تذکرہ کر تو سہی بے سرو سامانی کا