مالکِ مُلکِ سخا ، صاحبِ کاشانۂ لطف !
خیر آرائے دو عالَم ہے ، ترا ریزۂ لطف
حسرتِ حرف میں رہتا نہیں مداح تیرا
لب پہ صلِ علیٰ ، ہاتھ میں ہے بُردۂ لطف
کیا عجب طُرفہ رفاقت کے نشاں ہیں دونوں
دستِ اُمید مرا اور ترا بادۂ لطف
جُود پرور ہے ترا نقشِ عطا گنبدِ سبز
خیر یاور ہے ترا شہرِ سخا ، کوچۂ لطف
ڈھانپ لے گا مجھے محشر میں ترا دامنِ خیر
ڈھونڈ لے گا پسِ ادبار ترا دیدۂ لطف
خاص ہیں گُلشنِ ہستی میں ترے فیض کے رنگ
عام ہے بہرِ عنایات ترا موچۂ لطف
پھر سے مہکی ہے دل و جاں میں مدینے کی نوید
پھر سے لائی ہے یقیں یاب صبا مژدۂ لطف
روح افزا ہے تسلی کو تری یاد کا لمس
جان پرور ہے تمنا کو ترا غمزۂ لطف
منزلیں کعبۂ افکار کا کرتی ہیں طواف
جب سے امکان میں چمکا ہے ترا جادۂ لطف
ہم خطا کار ترے عفو کی تحصیر میں ہیں
بے نہایت ہے بصد کیف ترا حیطۂ لطف
بہرِ تسکین مسلسل ہے اُسی در کی عطا
آؤ مقصودؔ پئے لطف سوئے قریۂ لطف