اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف سکالر اور صوفی علوم کے ماہر پروفیسر نثار احمد فاروقی کا یومِ پیدائش ہے

نثار احمد فاروقی(پیدائش: 29 جون 1934ء – وفات: 28 نومبر 2004ء)
——
نثار احمد فاروقی اتر پردیش کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ والد تسلیم احمد اور والدہ میمونہ خاتون تھیں، ان کی اولاد میں سے بڑے تھے۔ ان کے خاندان کا شجرہ 41 ویں پشت سے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق سے جا ملتا تھا۔ اسی طرح 22 ویں پشت سے حضرت بابا فرید گنج شکر سے بھی جا ملتا ہے۔
فاروقی اپنے نانا اور مامو سے عربی، فارسی، اردو اور اسلامی تعلیمات گھر پر ہی سیکھے۔ وہ پھر حیدرآباد (دکن) گئے، پھر علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ چند مہینے جامعہ علی گڑھ میں اردو کی تعلیم بھی کی۔ پھر عربی میں یم اے کیا۔ پی۔ ایچ۔ ڈی۔ ابتدائی مسلم تاریخ سازی پر جامعہ دہلی سے کیا۔ جامعہ دہلی میں جدیدی عربی کی تدریس کے لیے فائز کیے گئے۔ پھر عربی شعبہ کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ 2002 میں موظف ہوئے۔ ان کو فارسی اور عربی زبان کی خدمات کے لیے کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ فاروقی صاحب پنجابی، انگریزی، ہندی، اردو زبانوں میں بھی ماہر مانے جاتے ہیں۔
1983 میں جناب زیل سنگھ صدر ہند کے ہاتھوں سند سے بھی نوازا گیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : ساقی فاروقی کا یوم وفات
——
آپ کی زوجہ رضیہ فاروقی ہیں۔ ان کی چار اولاد، دو فرزند نجم الھادی اور نذرالھادی اور دو دختر شمیسہ اور بسیمہ۔ فاروقی صاحب کا انتقال 28 نومبر 2004 کو ہوا۔ آخری ایام میں مریض رہے۔ ان کی تدفین امروہہ میں ہوئی۔ ان کی زوجہ 6 جون 2008 دہرہ دون میں انتقال کر گئیں۔
فاروقی صاحب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون اور اشتراک سے امروہہ میں، خطاطی پروگرام کے دو مراکز برائے مرد و خواتین الگ الگ قائم کیے اور ساتھ ساتھ ایک کمپیوٹر سینٹر بھی قائم کر اردو روایات کو بحال رکھا۔
——
نثار احمد فاروقی از مجتبیٰ حسین
——
ماہنامہ ’’کتاب نما‘‘ کے مدیر اور مکتبہ جامعہ کے جنرل مینجر شاہد علی خاں بڑے کمال کے آدمی ہیں۔ ادھر انہوں نے بعض اہم ادیبوں اور شخصیتوںکے بارے میں اپنے رسالے کے خصوصی شمارے شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ انہوں نے ابتداء میں دو چار خصوصی شمارے مرحومین کے بارے میں شائع کئے، مگر اب یہ ان لوگوں کے خصوصی شمارے بھی شائع کرنے لگے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اب تک زندہ رہ گئے ہیں(خصوصی شمارے کی اشاعت کے بعد مرجائیں تو یہ الگ بات ہے) مگر یہ اردو والوں کے مزاج کے یکسر خلاف بات ہے ۔ ہم کسی کی پیٹھ پیچھے تعریف اس وقت تک نہیں کرتے جب تک کہ اس شخصیت کی پیٹھ قبر میں نہ اتاردی جائے جس کی تعریف مقصود ہو ۔ زندگی میں تو پیٹھ پیچھے غیبت ہی بھلی لگتی ہے ۔ دو ایک بار شاہد علی خاں سے شکایت کی کہ آپ کی اس ’’غیر اردو‘‘ حرکت کی وجہ سے ہمیں زندہ ادیبوں کی بھی عزت کرنے کی عادت پڑتی جارہی ہے ۔ آخر کتنوں کی عزت کریں ؟ مردوں کی تو خیر واجب ہے ، اب زندوں کی بھی کرنا پڑ رہی ہے ۔ ہماری شکایت کے جواب میں وہ ہمیشہ دوردرشن والی ہنسی ہنس کر خاموش ہوجاتے ہیں۔
ابھی پچھلے دنوں انہوںنے ہمارے دوست پروفیسر نثار احمد فاروقی کے بارے میں اپنے رسالے کا ایک خصوصی شمارہ شائع کیا ہے (سچ تو یہ ہے اس شمارے کے گہرے مطالعہ کے بعد ہم میں نہ یہ تاب ہے نہ مجال کہ نثار احمد فاروقی کو اپنا دوست کہہ سکیں۔ ہماری کیا بساط کہ اپنے آپ کو ان کے حلقہ احباب میں شامل کرسکیں۔ حالانکہ ان سے پینتیس (35) برس پرانی دوستی ہے ) اگرچہ نثار احمد فاروقی کو ہم بہت پہلے سے ایک بے پناہ عالم ، بے بدل محقق ، بے مثال انشا پرداز اورایک بے ریا نقاد کے طور پر جانتے ہیں لیکن ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ اتنے بڑے عالم ، اتنے بڑے محقق اور نقاد وغیرہ ہیں۔ بلا شبہ ہم ان سے قدم بہ قدم اکتساب علم کرتے رہے ہیں، لیکن ان سے اتنا ہی ضروری علم حاصل کیا جتنی کہ ہماری خوش دلی اور خوش ذوقی کو ضرورت تھی ۔ اب جو خصوصی شمارے میں ان کی علمی فتوحات اور ادبی کارناموں کا تفصیل سے ذکر پڑھا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں (نیند میں بھی بڑی مشکل سے بند ہورہی ہیں) ہماری حالت اس غیر تعلیم یافتہ عمر رسیدہ شخص کی سی ہوگئی ہے جس نے پچاس برس کی عمر کے بعد تعلیم حاصل کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔ایک دن اس نے گرامر کی کتاب پڑھی اور جب اسے اچانک یہ احساس ہوا کہ گرامر کے باضابطہ مطالعہ کے بغیر بھی وہ پچھلے کم و بیش پچاس برسوں سے صحیح زبان بولتا رہا ہے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا ۔ چنانچہ اب ہم اس احساس کے باعث خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے ہیں کہ پچھلے (35) برسوں سے ہم ایک بڑے عالم کی صحبت میں وقت گزار رہے ہیں اور ہمیں اس کا پتہ ہی نہ چل پایا ۔ بات دراصل یہ ہے کہ نثاراحمد فاروقی علم کا ایک سمندر ہیں جس کو جتنا پانی چاہئے وہ لے لے۔ ہمارے لئے تو چلو بھر پانی بھی کافی ہے ۔ ان کے اس وافر اور فالتو علم سے ہمیں کیا لینا دیناہے ۔ ہم نے ان کے علم سے صرف اتنا ہی استفادہ کیا ہے جتنا کہ ہماری خوش دلی اور خوش ذوقی کو درکار تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ عالم ہونے کے باوجود بے حد ہنسوڑ اور خوش مذاق آدمی ہیں ۔ ایسے کھلے دل سے ہنستے ہیں کہ ان کے کھلے دماغ والے عالم ہونے پر شبہ سا ہونے لگتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : شمس الرحمٰن فاروقی کا یومِ وفات
——
لندن میں ہیروڈس کا ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور ہے جس میں سوئی سے لے کر ہاتھی تک ساری چیزیں دستیاب ہوجاتی ہیں۔ اصل میں نثار احمد فاروقی بھی علم کا ایک ایسا ہی ڈپارٹمنٹل اسٹور ہیں۔ ہمیں اس ڈپارٹمنٹل اسٹور سے صرف سوئی درکار تھی سو وہ لے لی ۔ ہاتھی سے ہمیں کیا مطلب ؟ ۔ وہ ہم سے عمر میں دو ایک برس بڑے ہوں گے لیکن جتنا علم انہوں نے اس مختصر سی مدت میں اپنی ذات میں جمع کرلیا ہے اس کیلئے ہم جیسے آدمی کوکم از کم پانچ سو برس کی عمر درکار ہوگی ۔ جس آدمی نے بارہ برس کی عمر سے لکھنا شروع کیا ہو اور جو دنیا کی بہتر ین کتابوں کا مطالعہ کرچکا ہو ، اس کے علم کے کیا کہنے ۔ وہ چار زبانوں پر گہری دسترس رکھتے ہیں۔ فارسی تو ان کے گھر کی لونڈی ہے ، اردو مادری زبان ہے ، عربی کے وہ پروفیسر اور استاد ہونے کے علاوہ صدر شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی بھی ہیں۔ انگریزی پر ایسا عبور رکھتے ہیں کہ لگتا ہے کہ انگریز ان کی انگریزی دانی سے مرعوب ہوکر ہی اس ملک کو چھوڑکر چلے گئے ۔ زبانیں تو وہ اور بھی کئی جانتے ہیں لیکن صرف چار زبانوں کو ہی اچھی طرح جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں (ذرا سوچئے کہ شرعی پابندیوں کا کتنا پاس و لحاظ رکھتے ہیں) لیکن حیرت یہ ہوتی ہے کہ اتنی ساری زبانیں جاننے کے باوجود نہایت سادہ اور آسان زبان لکھتے ہیں ۔ کہتے ہیں جو آدمی زبان پر گہری قدرت رکھتا ہے وہ مشکل زبان لکھ ہی نہیں سکتا۔
یادش بخیر ۔ ہم سے اُن کی ملاقات غالباً 1958 ء میں حیدرآباد میں روزنامہ ’’سیاست‘’ کے انتخاب پریس میں ہوئی تھی ۔ اردو کے خاموش خدمت گزار منظور احمد (جو اُن دنوں اردو مجلس کے سکریٹری تھے ان کے ہمراہ تھے ) کسی مخطوطے کی اشاعت کا مسئلہ تھا ۔ پہلی ملاقات میں ہم نثار احمد فاروقی کی گہری علمیت سے مرعوب تو ہوئے تھے لیکن ان کی شخصیت میں خوش دلی کا جو سرا ہمیں نظر آیا تو اسے تھام لیا اور آج تک اسی کو تھامے ہوئے ہیں۔ حیدرآباد سے انہیں بے پناہ اُنس ہے ۔ بچپن میں وہ 1946 ء اور 1947 ء تک حیدرآباد کے مدرسہ وسطانیہ اردو شریف میں تعلیم بھی حاصل کرچکے ہیں ۔ اب بھی اکثر حیدرآباد آتے جاتے رہتے ہیں ( بڑی خاموشی کے ساتھ) حیدرآباد سے وہ کتناگہرا تعلق رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایئے کہ ایک بار انہوں نے ہم سے چکنی سپاری اور لیموں کا حیدرآبادی اچار لانے کی فرمائش کی۔ وہ ہم نے لاکران کے حوالے کیں تو اس کی قیمت دینے لگے ۔ ہم نے لینے سے انکار کیا تو بولے ’’ایسا ہے تو اگلی بارایک کیلو سپاری اور دو کیلو اچار اور لیتے آیئے گا !‘‘
نثار احمد فاروقی نہایت کم عمری میں ڈاکٹر ذاکر حسین ، رشید احمد صدیقی ، عبدالماجد دریا بادی ، امتیاز علی خاں عرشی ، مالک رام ، مولانا سید ابوالحسن ندوی جیسے صاحبان علم سے اپنی علمیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔اب جو ہم ان کی علمیت کے معاملے میں رطب اللسّان ہیں تو یہ بے وقت کی راگنی ہی ہے ۔ وہ تو آئے دن علم کے سمندر میں غوطے لگاتے رہتے ہیں اور جب بھی سطح پر نموادر ہوتے ہیں تو تہہ سے کوئی نہ کوئی موتی ضرور لے آتے ہیں۔ ایک بار ہمیں بھی علم کے سمندر میں غوطہ لگانے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ ہم نے کہا ’’ہمیں ڈر ہے کہ ایک بار غوطہ لگایا تو پھر واپس نہیں آنے کے‘‘ بولے ’’فکر نہ کرو ، کیا عجب کہ کئی برس بعد کوئی محقق تمہیں موتی کے روپ میں سمندر سے پھر باہر نکال کر لے آئے‘‘۔
——
یہ بھی پڑھیں : ساقی فاروقی کا یوم پیدائش
——
نثار احمد فاروقی کی دوستی ہمارے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہے ۔ انہوں نے دہلی یونیورسٹی میں لائبریری اسسٹنٹ کی حیثیت سے اپنی علمی اور عملی زندگی کا آغاز کیا تھا اور آج وہ دہلی یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ آج دنیائے علم و ادب میں ان کا طوطی بولتا ہے ۔ اردو کے اکثر نام نہاد نقاد جو مغربی تنقیدکے حوالے دے کر ادب میں اپنی جگہ بنانے کی خواہش میں خوار ہورہے ہیں انہوں نے بھی نثار احمد فاروقی سے بہت کچھ اکتساب کیا ہے ، یہ سب جانتے ہیں۔ ان کا حافظہ غضب کا ہے۔ بلا شبہ اردو ، فارسی اور عربی کے ہزاروں اشعار انہیں زبانی یاد ہیں۔ پہلے وہ غالب کے طرفدار تھے ، پھر میرؔ کے سخن فہم ہوئے ۔ میر پر ان کی کتاب ’’تلاش میر‘‘ اہل نظر سے داد حاصل کرچکی ہے۔ میر کی آپ بیتی ’’ذکرِ میر ‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ بھی انہوں نے 1957 ء میں چھاپا تھا ، جس کا دوسرا ایڈیشن آج کل زیر طباعت ہے ۔ میرؔ کے اشعار بھی وہ ایسے بر محل اور پر تاثیر انداز میں پڑھتے ہیں کہ خود میر بھی اپنا شعر سنتے رہ جائیں۔
ہمیں یاد ہے کہ جب شاہد علی خاں نے ہمیں ’’کتاب نما ‘‘ کا عابد علی خاں مرحوم سے متعلق خصوصی شمارہ مرتب کرنے کیلئے کہا تو بر بنائے دوستی ہم نے نثار احمد فاروقی سے اس خصوصی شمارے کیلئے مضمون لکھنے کی خواہش کی ۔ بولے ’’کل دوپہر میں گھر آکر مضمون لے جاؤ‘‘ ۔ دوسرے دن ہم گئے تو مضمون تیار تھا ۔ اب جو ہم نے مضمون پڑھنا شروع کیا تو دنگ رہ گئے ۔ ان کی اپنی مخصوص فصاحت ، روانی اور سلاست تو تھی ہی لیکن عابد علی خاں مرحوم کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جس پر ان کی نظر نہ گئی ہو۔ ہم نے کہا ’’اتنے کم وقت میں عابد علی خاں مرحوم کے بارے میں اتنی تفصیلات آپ کو کہاں سے مل گئیں؟ ‘‘بولے ’’میاں مجتبیٰ ۔ عابد علی خاں ان بزرگوں میں سے تھے جن کی کتاب زندگی کے ایک ایک ورق کو زبانی یاد رکھنا ہم سب کا فرض ہے ۔ جس شخص نے بُرے وقت میں اردو صحافت پر احسان کیا ہو اسے کوئی بھلادے تو اس سے بڑی محسن کشی اور کیا ہوگی ؟ ‘‘
نثاراحمد فاروقی خود ہماری مزاح نگاری کے بارے میں بڑی انوکھی اور دلچسپ رائے رکھتے ہیں۔ اک دن کہنے لگے ’’تمہارے اکثر مزاحیہ مضامین پڑھتا ہوں تو آنکھ میں آنسو آجاتے ہیں۔ چنانچہ تمہارے مضمون ’’اردو کا آخری قاری‘‘ کو جب بھی پڑھتا ہوں آنکھوں سے آنسو ہی پونچھتا رہ جاتا ہوں۔تمہارے مزاح میں جو غم انگیزی ہے ، وہ غیر معمولی چیز ہے اور میں اسے مزاح کی معراج سمجھتا ہوں‘‘۔
ہم نے کہا ’’یہ بات آپ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ آپ میرے غم سے واقف نہیں ہیں۔ وہ نہایت مضحکہ خیز ہے‘‘۔
بولے ’’آج کے دور کی سچائی غم کی مضحکہ خیزی اور مزاح کی غم انگیزی کے بیچ میں کہیں پوشیدہ ہے‘‘۔
——
یہ بھی پڑھیں : محمد احسن فاروقی کا یوم وفات
——
نثاراحمد فاروقی کی اس بلیغ رائے کے بعد ہی ہمیں پتہ چلا کہ لوگ ہماری تحریروں پر پھوٹ پھوٹ کر کیوں ہنستے ہیں، بلک بلک کر کیوں مسکراتے ہیں، سسک سسک کر کیوں خندہ زن ہوتے ہیںاور دہاڑیں مار مار کر کیوں قہقہہ لگاتے ہیں۔
جی تو بہت چاہتا ہے کہ شاہد علی خاں کواس خصوصی شمارے کی اشاعت پر مبارکباد دی جائے لیکن انہیں کیا معلوم کہ اس خصوصی شمارے کے مطالعہ کا ہماری ذات پر کیا معکوس اثر پڑا ہے کیونکہ ہمیںاندیشہ ہے کہ نثار احمد فاروقی سے پینتیس برس پرانے اور وہ بھی بے تکلفانہ تعلقات اب ایسے نہیں رہیں گے جیسے کہ اب تک تھے۔ اب ہمیں بھی احتراماً ان کی صحبت میں دیگر عالموں کی طرح خاموش رہنا پڑے گا ۔ نقصان ہمارا تو کیا ہوگا ان کا ہی ہوگا، کیونکہ بقول حضرت علیؒ علم تو جاہلوں کو دیکھ کر ہی سیکھا جاتا ہے ! (1995)
پس نوشت
پروفیسر نثار احمد فاروقی کو اترپردیش اردو اکیڈیمی کے ایک لاکھ گیارہ ہزار روپئے کی مالیت کے مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ کے ملنے کی اُڑتی اڑتی اطلاع ہمیں مدینہ کے اوبرائے ہوٹل کے ڈائیننگ ہال میں اس وقت ملی جب ہم ہوٹل کے مینو کارڈ کے تفصیلی مطالعہ کے ذریعہ کسی ایسے کھانے کی تلاش میں تھے جو سیدھا سادہ اور زود ہضم ہو۔ ایسا کھانا چونکہ ہمیں مل نہیں پارہا تھا تو ڈائیننگ ہال کے انچارج عباسی صاحب ہمارے پاس آئے ۔ عباسی صاحب امروہہ کے رہنے والے ہیں اور ان میں جتنا ’’اپناپن‘‘ ہمیں نظر آیا اتنا ’’امروہہ پن‘‘ نظر نہیں آیا ۔ پہلے ہی دن سے وہ ہم پر اس لئے بھی مہربان ہوگئے تھے کہ ہم پروفیسر نثار احمد فاروقی کے دوست ہیں۔ کہنے لگے ’’ کیا میں کھانے کے انتخاب میں آپ کی کوئی مدد کرسکتا ہوں ۔ آپ چونکہ نثار احمد فاروقی کے دوست ہیں ، اس لئے مرغّن غذاؤں کی تلاش میں ہوں گے۔
ہم نے پوچھا ’’آپ کو کیسے پتہ کہ فاروقی صاحب مرغّن غذائیں کھاتے ہیں؟ ‘‘ بولے ’’اس لئے کہ میں ان کا پڑوسی رہ چکا ہوں‘‘۔
ہم نے کہا ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ فاروقی صاحب کے گھر کی دعوتوں میں ضرور شریک ہوتے ہوں گے ‘‘۔ بولے ’’دعوت میں تو خیر شریک نہیں ہوا البتہ ان کے گھر سے پکوان کی جو خوشبو آتی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے ۔ یوں بھی ایک اچھا اور سچا پڑوسی دوسرے پڑوسی کے حالات کا اسی طرح اندازہ لگاتا ہے‘‘۔
ہم نے کہا ’’خدا ہر ایک کو آپ جیسا شائستہ اور مہذب پڑوسی عطا کرے ۔ ویسے آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ میں مرغّن غذاؤں سے پرہیز کرتا ہوں۔ چونکہ ہلکی پھلکی تحریریں لکھتا ہوں اسی لئے غذائیں بھی ہلکی پھلکی لیتا ہوں ، فاروقی صاحب کی بات دوسری ہے ۔ ان کی تحقیق اور تنقید اتنی ثقیل اور مرغّن ہوتی ہے کہ اسی مناسبت سے ان کیلئے مرغّن غذاؤں کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے ‘‘۔
——
یہ بھی پڑھیں : شمس الرحمٰن فاروقی کا یومِ پیدائش
——
ہماری بات پر مسکرا کر بولے ’’ویسے آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ مجھے کل رات ہی پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں فاروقی صاحب کو کچھ ملا ہے‘‘۔
ہم نے کہا ’’ضرور کوئی مخطوطہ ملا ہوگا ۔ انہیں اس کے سوائے اور مل بھی کیا سکتا ہے ‘‘۔ بولے ’’مخطوطہ نہیں کچھ اور ملا ہے ‘‘۔
ہم نے کہا ’’انہیں کوئی انعام تو نہیں مل سکتا کیونکہ ان دنوں جس طرح کے انعامات رائج ہیں ، انہیں کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے ، اس گر سے وہ بالکل ناواقف ہیں۔ مخطوطہ البتہ انہیں ضرور مل سکتا ہے کیونکہ وہ انعام کی تلاش میں کم اور مخطوطہ کی تلاش میں زیادہ رہتے ہیں۔ ایک بار انہیں پینتیس برس پرانا ایک مخطوطہ ملا تھا ۔ بے حد خوش تھے ، کہنے لگے ’’اس مخطوطہ کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کچھ ایسے خیالات پیش کئے گئے ہیں جو میرے اپنے لگتے ہیں۔ مجھے بہت کم مخطوطے ایسے ملے ہیں جن سے میں خود بھی متفق نظر آؤں ‘‘۔ ہم نے نادر مخطوطہ کا مطالعہ کیا تو احساس ہوا کہ اس مخطوطہ میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ان سے کم از کم ہمارا کبھی اتفاق نہیں ہوسکتا ۔ اسی لئے یقین سا ہوگیا کہ یہ مخطوطہ خود نثار احمد فاروقی کا لکھا ہوا ہے، جس پر انہوں نے مخطوطہ کے لکھے جانے کی تاریخ تو لکھ دی تھی لیکن اپنا نام لکھنا بھول گئے تھے ۔ بعد میں جب ہم نے دلائل سے یہ ثابت کردیا کہ امتداد زمانہ کے باعث ان کے سابقہ ہینڈ رائٹنگ اور مروجہ ہینڈ رائٹنگ میں فرق پیدا ہوگیا ہے تو اس مخطوطہ کی دریافت پر نہ صرف بے پناہ خوش ہوئے بلکہ اس کی دریافت کا سہرا بھی ہمارے سر باندھنے پر مُصر نظر آئے ۔ بڑی مشکل سے ہم اپنے سر کو ان کے سہرے سے بچا کر بھاگ آئے ‘‘۔اس پر عباسی صاحب نے بتایا ’’آپ اطمینان رکھیں فاروقی صاحب کو اس بار کوئی مخطوط نہیں ملا ہے بلکہ انعام ہی ملا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ انعام کی رقم بھی اچھی خاصی ہے‘‘۔ ہم نے کہا’’ہوگا کوئی پندرہ بیس ہزار روپئے کا انعام ‘‘ ۔
بولے ’’جہاں تک مجھے یاد ہے کل رات تک تو اس انعام کی رقم ایک لاکھ روپئے سے اوپر تھی ۔ اب کم ہوگئی ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتا۔ یوں بھی ہندوستان کے حالات آج کل کچھ ایسے ویسے ہی ہیں ‘‘۔
اس اطلاع کو سن کر ہم اتنے خوش ہوئے کہ عباسی صاحب نے اس دن جتنی مرغّن غذائیں کھلائیں سب کی سب کھا گئے ۔ آدمی خوش ہو تو اسی طرح کھانا کھاتا ہے ۔ اس دن یقین آیا کہ کبھی کبھی ہماری اردو اکیڈیمیاں غلطی سے صحیح فیصلے بھی کرلیتی ہیں ۔ ورنہ اکثر یہ ہوتا آیا ہے کہ جب کبھی کسی اردو اکیڈیمی کی طرف سے کسی ادیب کو انعام ملتا ہے تو وہ انعام یافتہ کم اور سزا یافتہ زیادہ نظر آنے لگتا ہے۔ جی تو چاہ رہا ہے کہ خود اترپردیش اردو اکیڈیمی کواس بات پر کوئی موزوں ایوارڈ دیا جائے کہ اس نے نثار احمد فاروقی کو اپنا سب سے بڑا ایوارڈ دیا ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اس سے اترپردیش اردو اکیڈیمی کے اعزاز میں ضرور اضافہ ہوگا ۔
——
حوالہ جات
——
میرا کالم از مجتبیٰ حسین ، 27 مئی 2018

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ