اردوئے معلیٰ

مر بھی جائے تو تری بات سے جی اُٹھتا ہے

دلِ بے صوت کرامات سے جی اُٹھتا ہے

 

تیرا انعام فزوں ہے، ترا احسان رفیع

کہ گدا اپنے سوالات سے جی اُٹھتا ہے

 

رات کے پچھلے پہر دیدۂ حیرت کے قریں

ایک لمحہ ہے جو لمعات سے جی اُٹھتا ہے

 

نعت گو عجز سے بُنتا ہے حروفِ مدحت

خامہ پھر تیری عنایات سے جی اُٹھتا ہے

 

آنکھ کو رہتی ہے گو صبحِ کرم کی خواہش

خواب تو وصل کی سوغات سے جی اُٹھتا ہے

 

شوق اِک ہجر زدہ مرگ کا سنسان وجود

خواہشِ دید کی خیرات سے جی اُٹھتا ہے

 

دل بہت دیر سے ہے خانۂ بے نُور و ضیا

ہو عنایت کہ تری بات سے جی اُٹھتا ہے

 

اوڑھ لے کوئی اگر خواہشِ احرامِ ثنا

زیست کی سرحدِ میقات سے جی اُٹھتا ہے

 

کیا عجب ہے تری آمد کا یہ احساسِ دروں

وصل کا لمس، خیالات سے جی اُٹھتا ہے

 

اُن کی مدحت کی ہے مقصودؔ جُداگانہ لگن

حرف خود شوخیٔ نغمات سے جی اُٹھتا ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات