مطلعِ رفعتِ بے حد پہ رقم ہے، ذکرک
بر تر از حیطۂ موجود و عدم ہے، ذکرک
ایک تسکینِ مسلسل ہے کہ در آتی ہے
بخدا ماحیٔ ہر نقشِ اَلَم ہے، ذکرک
اسم، اوصاف، دُعا، نعت، درود اور سلام
جیسے اِک سلسلۂ کیفِ اَتَم ہے، ذکرک
عبد کو باندھنا ہوتے ہیں فقط حرفِ دُعا
موجبِ شوخیٔ الطاف و نِعَم ہے، ذکرک
بس اِسی طَور سلامت ہے یہ میزانِ سخن
حاصلِ نُطقِ عرب، تابِ عجم ہے، ذکرک
آنکھ سے گرتے ہُوئے اشک سے بنتا منظر
پلکوں پر کھِلتا ہُوا قطرئہ نم ہے، ذکرک
فکر کے طاق میں روشن ہے چراغِ مدحت
دل کے اِس ربط سے نغموں کا بھرم ہے، ذکرک
رب نے بخشی ہے جو یہ صورتِ اورادِ عطا
اُس کا بندوں پہ بہت خاص کرم ہے، ذکرک
تاباں ہے جیسے سرِ منظرِ امکان، درود
نغمۂ شادیٔ حُورانِ ارَم ہے، ذکرک
قبر میں بھی تو نہیں ٹُوٹے گی اس صوت کی لَے
مرا احساس پسِ موجۂ دَم ہے، ذکرک
بہرِ تذکیر ہے مقصودؔؔ یہ سب نظمِ رواں
اوجِ امکانِ فزوں، شانِ حشَم ہے، ذکرک