معدن جود و عطا شاہِ مدینہ آقا
سبز گنبد ہے ترا مثلِ نگینہ آقا
دھڑکنیں صل علی صل علی کہتی رہیں
ذکر کا کردے عطا ایسا قرینہ آقا
ہے ترا دست کرم بار ہی امید مری
بحرِ عصیاں میں پھنسا میرا سفینہ آقا
خاکِ پا آپ کی مل جائے تو میں رقص کروں
اس سے بڑھ کر بھی ہے کیا کوئی خزینہ آقا
مشک و عنبرکو بھی دیتا ہے مہکنے کا ہنر
آپ کے جسمِ معطر کا پسینہ آقا
ناز سے آپ کے کاندھوں پہ سواری جو کرے
آپ ہی کی ہے وہ اولادِ نرینہ آقا
دلِ منظرؔ میں مسرت کی کلی کھل اٹھی
آگیا آپ کی آمد کا مہینہ آقا