معطر معطر پسینہ ہے ان کا
مطہر معنبر مدینہ ہے ان کا
خدا کا کہا بولتے ہیں ہمیشہ
خدا کا یہ قرآں قرینہ ہے ان کا
نہیں ڈوب سکتا مجھے یہ یقیں ہے
میں بیٹھا ہوں جس پر، سفینہ ہے ان کا
منائیں گے میلاد ہم جس مہینے
وہ خوشیوں کا محور، مہینہ ہے ان کا
عقیق اور نیلم بنے اُن کی خاطر
جو انگلی میں ڈالیں نگینہ ہے ان کا
جو ہستی کے احمد ، بتاتے ضوابط
صحابہ کے دل میں دفینہ ہے ان کا
وہ پیارے ہیں قائم شہِ دو سرا کو
نجف کربلا میں خزینہ ہے اُن کا