اردوئے معلیٰ

سبطِ سرکارِ دوعالم کا کہاں ثانی ہے

جیسا منصب ہے بڑا ویسی ہی قربانی ہے

 

ایک اظہارِ’’ فنا فی اللہ‘‘ ہے سجدا تیرا

منزلِ عشق تو آقا تری پیشانی ہے

 

ہر حوالہ ہی ترا ایک سند ہے آقا

ہر زمانہ ہی ترا عہدِ ثنا خوانی ہے

 

آلِ اطہار کے خیمہ میں ہے بس نور ہی نور

رُخِ باطل پہ فقط وحشت و ویرانی ہے

 

لشکرِ ظلم کو عبرت کا نشاں کرڈالا

تیر ے کردار کی ہردور میں سلطانی ہے

 

سر کٹاتے ہیں بصد ناز وفا کے پیکر

کیسا اخلاص ہے کیا جذبہِ ایمانی ہے

 

گر حسینی ہو تو پھر دین سے دوری کیسی

روحِ شبیرؓکو اس بات پہ حیرانی ہے

 

عشق کب دائرہِ عقل میں آتا ہے شکیلؔ

حق نے باطل کی کہاں آج تلک مانی ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔