نبی کے دم سے ہی یہ ہست و بود قائم ہیں
رواں دواں ہے جہاں اور وجود قائم ہیں
ہوائے طیبہ مرے بام و در سے گزری ہے
فضائے دل میں مرے مشک و عود قائم ہیں
برورِ حشر ہر اک فعل مسترد ہے مگر
پڑھے تھے جتنے بھی سارے درود قائم ہیں
نبی کی آلِ عبا کے لہو کا ہے یہ ثمر
بہ پیشِ رب یہ قیام و قعود قائم ہیں
یہ فیضِ عشق محمد ہے اور کچھ بھی نہیں
مرے سخن میں جو زود و ورود قائم ہیں
جتن ہزار کیے لاکھ اس کو سمجھایا
درِ نبی پہ نظر کے سجود قائم ہیں
ترے ہی اذن و عطا سے ہے نعت کا منظرؔ
ترے ہی دم سے یہ نام و نمود قائم ہیں