وہ لطف رنگ سحاب بھی ہے نسیم رحمت ماب بھی ہے
رسولوں میں انتخاب بھی ہے زمیں پہ گردوں کا رکاب بھی ہے
رفیق بھی ہے خلیق بھی ہے آشنائے رمز طریق بھی ہے
وہ ایک بحر عمیق بھی ہے بشر فرشتہ جناب بھی ہے
وہ پیکر نور ہے مجسم وہ راز عرفان حق کا محرم
وہ عاجزوں بیکسوں کا ہمدم وہ اک جلالت ماب بھی ہے
رحیم بھی ہے کریم بھی ہے نعیم بھی ہے حکیم بھی ہے
جہاں میں فضل عظیم بھی علیم راہ ثواب بھی ہے
مئے رسالت کا نور پیکر خم حقیقت کا صاف منظر
وہ بادہ معرفت کا ساغر جہاں میں دور شراب بھی ہے
وہ بحر عرفاں کا ہے سفینہ کہ حق کا سینہ ہے اک خزینہ
ہے بام حقانیت کا زینہ وہ گویا لاحساب بھی ہے
شفیع بھی ہے سمیع بھی ہے خبیر بھی ہے
بصیر بھی ہے نصیر بھی ہے مگر وہ امی خطاب بھی ہے
وہ ذرہ ہو کر بھی مہر ٹھہرا وہ قطرہ ہو کر بنا ہے دریا
بشر بھی فوق البشر ہے یکتا وہ بحر بھی حباب بھی ہے
وہ سینہ اس کا فلک فضا ہے وہ قلب اس کا رہ صفا ہے
وہاں وہ بیدار رہنما ہے خضر جہاں محو خواب بھی ہے
وہ قاب قوسین کا نظارہ حبیب کہہ کر جسے پکارا
احد کا احمد سے ہے اشارہ سوال بھی ہے جواب بھی ہے
ہے روح فردوس کا خزانہ کہ نعت گوئی کا ہے ترانہ
کہ جس کا شیدا ہے اک زمانہ یہ باغ رضواں کا باب بھی ہے