پھول کھلا روِش روِش ، نُور کا اہتمام کر
حضرتِ قیس آئے ہیں ، دشتِ جنوں! سلام کر
سینہ نہ پِیٹ، ہجر ذاد! سینے میں دل مُقیم ہے
دل میں جنابِ یار ہیں ، اُن کا تو احترام کر
مصرعۂ چشم و لب سُنا ، نغمۂ حُسن گُنگُنا
تُو ہے مری غزل کی جان ، جانِ غزل! کلام کر
کوئی دوا بتا مجھے ، تھوڑا سکوں دِلا مجھے
آگ ہوں مَیں ، بُجھا مجھے ، وحشی ہوں، مجھ کو رام کر
عشق کا مُقتدی ہے تو ، جیسے پڑھائے ویسے پڑھ
اپنی نماز بھول جا ، پیرویٔ اِمام کر
سائیں جی! کھو گیا تھا میں ، شکر ہے آپ مل گئے
پہنچا ہوں اپنے آپ تک آپ کا ہاتھ تھام کر
ہجر قدیم بھید ہے ، وصل عظیم بھید ہے
ہجر کی رمز کھول دے ، وصل کا راز عام کر
اچھا نہیں ہے اتنا جوش ، اُڑنے لگے ہیں سب کے ہوش
فارسِ بے ادب ! خموش ، اب یہ غزل تمام کر