کوئی اپنی جھلک دِکھلا گیا ہے
مِرا اندر تلک مہکا گیا ہے
وہ جو روشن تھا میرے فن کا سورج
جُدائی میں تِری گہنا گیا ہے
عقیدت ہو گئی بدنام ناحق
نہ تیرا کچھ ، نہ کچھ میرا گیا ہے
سکونِ قلب ، کاروبار ، شہرت
تمہارے واسطے کیا کیا گیا ہے
اچانک رُک گئی ہے زندگی کیوں؟
مجھے اِک نقطے پر ٹھہرا گیا ہے
خزاں کے موسموں کا زرد پتّا
ہوا کے خوف سے تھرّا گیا ہے