کوئی بھی حرف سپردِ قلم نہیں کیا ہے
کہ تیرے نام کو جب تک رقم نہیں کیا ہے
ہمیں بھی حکم تھا لغزش کے بعد توبہ کا
کریم نے بھی سپردِ ستم نہیں کیا ہے
خرد کو خواہشِ تابِ نظر رہی، لیکن
جنوں نے دید کے منظر کو خم نہیں کیا ہے
کِواڑ اُس نے بھی سارے عطا کے وا رکھے
سوال ہم نے بھی کچھ بیش و کم نہیں کیا ہے
بس ایک ساعتِ دیدِ کرم رہی قائم
پسِ حجاب بھی آنکھوں کو نم نہیں کیا ہے
بس ایک طیبہ کی دُھن میں ہے ُگم یہ عمرِ رواں
خیال و خواب کو وقفِ ارم نہیں کیا ہے
مَیں تیرے شہر میں پہنچا ہوں اور سوچتا ہوں
مرے کریم نے کیا کیا کرم نہیں کیا ہے
زمانہ گرچہ ہے بے طرح سے عدو، لیکن
تمھارے ہوتے ہوئے کوئی غم نہیں کیا ہے
عطا و اذن سے نعتِ نبی لکھی مقصودؔ
تکلفاً کوئی مصرع بہم نہیں کیا ہے