گلِ سر سبد
——
’’گُلِ سر سبد‘‘ میرے دو مختصر نعتیہ مجموعوں ’’لولاک لَما‘‘ اور ’’حسنت جمیع خصالہ‘‘ کا مجموعہ (کلیات) ہے۔ ثانی الذکر مجموعے کے دو ایڈیشن چھپ چکے ہیں ۔ اب یہ تیسرا ایڈیشن ہے۔ یہ شاعری نہیں ہے ، عقیدت و مودت کے والہانہ نم دار جذبات کالفظی و تخلیقی اظہار ہے۔ میں نعت میں نبیٔ اطہر کے جسمِ معطر کی سراپا نگاری کا قائل نہیں ہوں۔ میرے نزدیک رسولِ امین کے اسوۂ حسنہ، اخلاقِ حمیدہ، اوصاف، کریمانہ کا منظوم اظہاریہ ___ ایک صالح اور فلاحی معاشرے کے قیام اور روحِ انسانی کی تہذیب کے لیے سرورِ انبیا کے آفاقی مشن کا بیان ، بحیثیت امتی اور نعت گذار ، اطاعت، محبت اور احترام و عقیدت کا تذکرہ نعت کے اصل موضوع ہیں۔ گویا نعت پڑھ کر یہ احساس نہ ہو کہ شاعر آقایانِ مجازی اور محبوبانِ دنیوی کی مدح سرائی میں کمر بستہ ہے ، بلکہ ایسا متانت آمیز اور تہذیب و شائستگی سے لبریز لہجہ ہو جس سے موضوع ایک ارفع سطح پر پہنچ جائے۔ حزم و احتیاط، تہذیب و شائستگی اور ادب و احترام کی سلیقہ مندی، موضوعِ نعت کے تشکیلی عناصر ہیں۔ مسئلہ ہیئت، صورت یا Form (معروض) کا نہیں بلکہ رحمتِ عالمین کی ذاتِ طیبہ کی سیرتِ منورہ کے ان پہلوؤں کا ہے جس نے کائنات کے پورے انسانی معاشرے میں ایک انقلاب آفریں روح پھونک دی، انسان، انسانیت اور اس کی عزتِ نفس کو توقیر عطا کر دی گئی اور یوں انسان کو درجۂ فضیلت عطا کر دیا گیا۔ صرف 23 سالہ نبوی دور کے مختصر عرصے میں جبکہ جنگ اور غزوات بھی ہیں، یہود و نصاریٰ سے میثاقات، معاہدے اور پنچائتیں بھی ہیں ، آپ کی مقدس عائلی زندگی کے شب و روز کے معمولات بھی ہیں، معاشرے کی ایسی معاشی، تمدنی تطہیر و تربیت ہو گئی کہ بدّو ، بد خُو وحوش مہذب قافلہ سالار بن گئے اور یہ حالت ہو گئی:
——
جس بَن کی سمت دیکھا چمن زار بن گیا
جس ذرّے کو چھوا مۂ انوار بن گیا
ثابت کو مَس کیا تو وہ سیّار بن گیا
جو بھی قدم اٹھایا وہ معیار بن گیا
تاثیر اس کی سانس میں ہے کیمیائی کی
اُس پر نظر لگی ہوئی ساری خدائی کی
——
میرے نزدیک اس عظیم الشان اور جلیل القدر کردار کی رحمت و رافت کا عمدہ لفظوں میں تخلیقی اظہار’’نعت‘‘ ہے ۔ یہ مقام تو ’’باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار‘‘ اور ’’از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر‘‘ کا مقام ہے۔
میں ’’گُلِ سر سبد‘‘ کی کمپوزنگ، تہذیب و ترتیب اور ڈیزائننگ کے لیے سخن سرائے پبلی کیشنز اور خوش فکر شاعر ارشد عباس ذکی کا شکر گزار ہوں۔
——
لولاک لما(نعتیہ مسدس)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حرفِ عجز
——
’’لولاک لما‘‘ پیش خدمت ہے۔ اس طویل نعت کا مسوّدہ ایک سال قبل کتابت ہو چکا تھا۔ لیکن بعض مجبوریوں کے باعث منظر عام پر نہ آسکا اس کی ساری ذمہّ داری مجھ پر ہے یہ شاعری نہیں۔ شاعری کے لیے میرا ذریعہ اظہار ’’غزل‘‘ ہے یہ تو ان گداز جذبوں کا تخلیقی اظہار ہے جو ہر وقت میری ذات کے سمندر میں متلاطم رہے۔ کبھی یہ میرے اشکوں میں منقلب ہو کر بہے۔ کبھی دھڑکن کے ساز میں متشکل ہوئے اور کبھی ان جذبوں نے طویل خاموشی کی ردا اوڑھ لی۔ یہ ساری جذباتی کیفیتیں۔ جو لفظ ’’مُحَمَّدْ‘‘ کے جمال اور جلال کو شعور ووجدان کے سامنے رکھنے سے پیدا ہوتی ہیں۔
مکہّ کے تیرہ بخت لوگ چراغِ ہدایت کے دشمن ہو گئے۔ حتیٰ کہ ہجرت کا حکم ہو گیا آپ اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ مکہّ سے مدینہ کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ مدینہ کے گلی کوچوں میں جب مہتابِ محبت کی کرنیں پھیلیں تو دروبام پر ایڑھیاں اٹھا اٹھاکر دیکھنے والی معصوم بچیوں نے یہ گانا شروع کر دیا۔
——
طلع البدر علینا من ثنیات الوداعٰ
وجب الشکر علینا مادعا اللہ داعٰ
ایھا المبعوث فینا جئت بالا مرمطاعٰ
——
نعت کے یہ چھ مصرعے جو بنیادی طور پر استقبالیہ جذبات کے حامل ہیں پڑھ کر یہ سوال میں نے کئی بار اپنے آپ سے کئے ہیں۔
۱۔ یہ کہ معصوم بچیوں کو شعر گوئی کا شعور کس نے دیا۔
۲۔ یہ کہ اتنی فنی مہارت اور چابک دستی کم سنوں میں کیوں کر آگئی۔
ماضی بعید میں یہ سوالات میں کئی بار اپنے آپ سے کر چکا ہوں۔ لیکن جب میں اس عمل سے خود گزرا اور پھر مشاہدئہ باطن کا ہنر بھی مجھے آیا تو ان سوالات کا جواب مجھے خودبخود مل گیا۔ جذبے کی شدت لفظوں کو خود حسنِ ترتیب دے دیتی ہے۔ جذبہ فن کا پیش رَوہے۔ جذبے کی صداقت فن کی ارفعیت کو جنم دیتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس بات کو اس طرح سمجھنا زیادہ آسان رہے گا کہ جذبہ پہلے ظہور میں آتا ہے اور فن کے سانچے بعد میں وضع ہوتے ہیں۔ دریا کا پانی اپنے فطری بہاؤ کے ساتھ بہتا ہے اور چلتے چلتے وہ رتیلی مٹی پر ایسے ایسے نقش چھوڑتا جاتا ہے کہ انسان کی مصوّر آنکھ اُسی رتیلی مٹی پر عجیب و غریب تصویریں، نقشے اور خاکے تلاش کر لیتی ہے۔ اب بات یہاں تک پہنچی کہ جذبہ اپنی صنف۔ اسلوب اور ہیئت خود وضع کر لیتا ہے۔ اور اسی کے مطابق الفاظ بھی منتخب کر لیتا ہے۔
یہاں میں ایک سوال کی اجازت چاہوں گا کہ اگر شاعری میں جذبے کی حکمرانی کو اسی طور پر تسلیم کر لیا جائے تو عروض۔ بحور۔ علم الکلام۔ اور علم البیان جیسے وقیع علوم بے معنی نظر آئیں گے۔ یہ بات اپنی جگہ ضروری ہے کہ تخلیق کی خانہ بندی کرتے وقت ہمیں ان پیمانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاہم انہی کی بنیاد پر تخلیق کرنا نہ تو لازمی ہے نہ سود بخش۔ گویا تخلیق شعر میں خالص‘ شفاف اور مخلص شعری جذباتیت جس میں شعور کا گہرا رچاؤ اور مشاہدات کا ایک منطقی اور فطری عنصر کارفرما ہونا ضروری ہے یوں جذبے کی صداقت۔ تجربے کی پختگی اور فطرت کا قریبی اور وجدانی مشاہدہ ملِ کر تخلیق شعر کی اساس بنتے ہیں۔ بعد میں اس تخلیق کا جو چاہے نام رکھ لیجئے اس طرح صنف اور ہیئت دوسرے درجے کی چیز رہ جاتی ہے۔
نعت گوئی کا آغاز خود قرآن مجید نے وَرَ فَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ۔ اور اِنَّ اللہَ وَمَلٰئِکَتَہ‘ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیّ ط یٰایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اصَلُّوْ عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً۔ کہہ کر دیا تھا۔ قرآن پاک نے تو ایمان والوں کے لئے یہ امر نازل کیا تھا لیکن ہم کو علم ہے کہ دنیا کے ہر مذہب کے اُردو اور فارسی شعراء نے نعت کے ایسے عمدہ اشعار کہے ہیں کہ روح و وجدان جھومنے لگتے ہیں۔ ربّ کونین نے خود رسول اکرم کی مدحت سرائی کی اور اس کے لئے ہم سب کو حکم دیا چنانچہ نعت گوئی ہم سب اہل قلم کا فریضہ بنتا ہے۔ اسلوب نعت کے بارے میں تو مَیں نے اپنی تَمہیدی گفتگو میں اظہار کردیا اب رہی بات موضوعات کی سو یہاں میں مروّجہ اصولِ نعت سے مختلف رویہّ رکھتا ہوں۔
ہمارے ہاں اردو ادب میں دیوان مرتّب کرتے وقت حمد و نعت کے اشعار شروع شروع میں تبّرک کے طور پر کہے جاتے تھے۔ پوری ادبی تاریخ میں دو، تین گنتی کے ایسے شعراء دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اپنی فکر کا محور مکمل طور پر رسول کریم کی ذاتِ اقدس کو ٹھہرایا اور محض نعت گوئی کی۔ مثلاً محسن کا کوروی اور حضرت احمد رضا خاں بریلویؒ ایک دو شاعر ایسے بھی ہیں جن کے نظامِ فکر پر مجموعی طور پر اسلامی رویوّں۔ تاریخ و ثقافت اور اسلامی طرز احساس کی چھاپ ہے مثلاً علاّمہ اقبال۔ ظفر علی خاں اور حالی۔
یہ دَور نعت کا دَور ہے لیکن کثرت کسی فعلیت کے لیے جہاں ممد ثابت ہوتی ہے وہاں کچھ قباحتیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ نعت گوئی کے سلسلے میں بھی ایسا ہوا۔ رسولِ اکرم کی حیات طیبّہ ایک ایسی روشن کتاب ہے جس سے زندگی کو نور، فکر کو طہارت اور عزم کو منزل ملتی ہے۔ آپ نے ہر تاریکی کے خلاف جہاد کیا۔ اور ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کا جواب پوری انسانی تاریخ کے پاس نہیں ہے۔ لیکن ہماری نعت کا ایک بہت بڑا حصّہ نبی مکرم کے پیکر کے زاویوں اور خدوخال کی وضاحت کے لئے وقف ہے۔ کیوں؟ آپ کے قدو قامت کی تعریف، زلف و رخسار کی تشریح۔ چشم و ابرو کا بیان آخر اس کا کیا جواز ہے۔ اس ساری گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ایسی کرنے سے محسنِ انسانیت کا جو پیکر مجموعی طور پر سامنے آتا ہے وہ غزل کے روایتی محبوب سے مختلف نہیں ہے۔
مجھے یقین ہے کہ میرے شعورِ عشق کی طرح آپ کی عقیدت کا جذبہِ تپیدہ بھی اس قبیل کی نعتیہ شاعری کی اجازت نہیں دیتا۔ نعت کا یہ وہ نازک مقام ہے جہاں غالب سانکتہ داں کہتا ہے کہ۔
——
غالب ثنائے خواجہ بہ یزادں گذا شیتم
کآں ذات پاک مرتبہ دانِ محمد است
——
سو جناب پہلی عرض تو یہ ہے کہ مدحت طرازی کے لمحے میں پیکر رسول مقبول کے بیان کے موضوع سے گریز نعت کے تقدس کے لیے ضروری ہے۔
دوسری بات اگرچہ بہت نازک ہے لیکن چونکہ بات چل نکلی ہے تو اس کا اظہار بھی ہو جائے۔ حالی نے مقدمہ لکھ کر اردو میں نقد و نظر کا بنیادی پتھر نصب کر کے آنے والوں کے لئے اعتباری راہیں متعین کر دی ہیں۔ اور اب تنقید اپنے نقطہ بہار پر ہے۔ نعت چونکہ بڑا مقدس اور مبارک فن ہے۔ اس لئے اس پر تنقیدی قلم اٹھاتے ہوئے ہر کوئی خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس خوف سے جو نقصا ن ہو رہا ہے۔ اس کا بار ہر اہل قلم پر ہے۔ نعت کے ہر مضمون پر بلا جواز آمنّا وصَدّ قَنا کہنا میرے خیال میں نعت کی خدمت نہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اگر نعت کے لئے کوئی تنقیدی پیمانے مقرر نہ کئے گئے تو نعت گوئی کا بے سمت قافلہ دُور جانکلے گا۔ ادبی انجمنوں میں ہونے والی برساتی تنقید کو میں نہ تو معیاری سمجھتا ہوں نہ غیر جانب دار نہ صحت مند اور نہ معتبر مطلب براری کے ان گروہوں کی تنقید کا تو خیر مذکورہی کیا قرطاس و قلم کی موجودہ تنقید بھی اپنا اعتبار کھو چکی ہے۔ لیکن تنقید کے اس انبار سے بعض ایسی دیرپا چیزیں تلاش کی جاسکتی ہیں جو ایک طرف غیر ضروری بے سمت رفتار کے لئے لگام ہیں اور دوسری جانب رہوارِتخلیق کے لئے مہمیز کا کام دیتی ہیں مقصود کلام یہ ہے کہ نعت گوئی کے تنقیدی دبستان کا اجرانعت کے موجودہ دَور کے لئے ضروری ہے۔
میں نے اب تک جو باتیں کی ہیں وہ تخصیصی نوعیت کی ہیں جن کا تعلق زیادہ تر میری ذاتی فکر اور سوچ سے ہے اور اب آخری بات جو میں کرنے والا ہوں وہ تعمیمی ہے۔ ایک بار میرے ایک مہربان نے یہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ نعت کہنا ’’شاعری‘‘ نہیں۔ ان کا نقطہ نظر وہی گِھسا پٹا تدریسی سبق ہے جو یہ بتاتا ہے کہ شاعری میں وعظ و نصیحت نہ ہو یہاں تک تو میں بھی اتفاق کرتا ہوں اور آپ بھی کرتے ہوں گے۔ لیکن فتویٰ صادر فرمانے والے اس سے بہت آگے نکل گئے ہیں اگر ادب سے زندگی تفریق کی جاسکتی ہے تو پھر شاعری سے نعت کونکالنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ خود ادب برائے زندگی کے پرچارک ہیںتو یہ نہایت مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ زندگی کی سَحر کو دین کے نور سے کیسے محروم کر رہے ہیں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ نئی نسل کے اس احساس کا رخ موڑا جائے۔ کہ نعت شاعری کے زمرے سے خارج ہے اور اس کا حل میری دوسری گزارش میں موجود ہے۔ اگر ہم نعت گوئی کا فروغ چاہتے ہیں اور سیرت طیبّہ کی قندیل کی روشنیاں عام کرنا چاہتے ہیں تو نعت میں ایسے مضامین کی حوصلہ افزائی کی جائے جن کا تعلق اسوئہ حسنہ سے ہے۔ جن کا واسطہ رحمتِ عالم کی انقلاب آفریں حیات سے ہے۔ جن کا رشتہ اخلاق نبوی سے ہے۔ جن کا علاقہ عقیدت و محبت کے متوازن جذبوں سے ہے۔ جن مضامین سے انسانی ذات میں تحقیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ جن سے دلوں میں موّدت اور احترام کے الاؤ سلگتے ہیں۔ اور جن سے ایمان کی کلیاں مہکتی ہیں۔
’’لَولاک لَما‘‘ کی اشاعت کے سلسلے میں جناب پروفیسر عاصی کرنالی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مسوّدے پر نظر ثانی کی۔ قاری محمد عبدالسلام قاسمی کا ممنون ہوں کہ انہوں نے ’’لَولاک لَما‘‘ کی خلوص اور محبت کے ساتھ کتابت کی۔ عزیزی شوذب کاظمی کا ممنون ہوں کہ انہوں نے کتاب کی پروف ریڈنگ کی اور املاء کی غلطیوں کی نشان دہی کی۔
——
سخن سرائے پبلی کیشنز۔ ملتان
جملہ حقوق محفوظ ہیں:
اس کتاب کا کوئی حصہ بھی پبلشر/ مصنف کی باقاعدہ تحریری اجازت کے بغیر کہیں بھی شائع یا براڈکاسٹ نہیں کیا جا سکتا۔
اگر اس قسم کی کوئی بھی صورتحال پیش آئی تو پبلشر/ مصنف کو قانونی کارروائی کا حق حاصل ہو گا۔
کتاب – گُلِ سر سبد
شاعر – انور جمال
اشاعت اوّل – فروری 2022ء
سرورق – ارشد عباس ذکی
کمپوزنگ – حسن کمپوزنگ، گلگشت ملتان
تعداد – 300
قیمت – 600 روپے
پرنٹر – رحمان شفیق پرنٹنگ پریس ، ملتان
بائنڈر – ندیم انور بک بائنڈنگ، ملتان
گُلِ سر سبد کا مطالعہ کرنے کے لیے کلک کریں :
گُلِ سر سبد
——
’’گُلِ سر سبد‘‘ میرے دو مختصر نعتیہ مجموعوں ’’لولاک لَما‘‘ اور ’’حسنت جمیع خصالہ‘‘ کا مجموعہ (کلیات) ہے۔ ثانی الذکر مجموعے کے دو ایڈیشن چھپ چکے ہیں ۔ اب یہ تیسرا ایڈیشن ہے۔ یہ شاعری نہیں ہے ، عقیدت و مودت کے والہانہ نم دار جذبات کالفظی و تخلیقی اظہار ہے۔ میں نعت میں نبیٔ اطہر کے جسمِ معطر کی سراپا نگاری کا قائل نہیں ہوں۔ میرے نزدیک رسولِ امین کے اسوۂ حسنہ، اخلاقِ حمیدہ، اوصاف، کریمانہ کا منظوم اظہاریہ ___ ایک صالح اور فلاحی معاشرے کے قیام اور روحِ انسانی کی تہذیب کے لیے سرورِ انبیا کے آفاقی مشن کا بیان ، بحیثیت امتی اور نعت گذار ، اطاعت، محبت اور احترام و عقیدت کا تذکرہ نعت کے اصل موضوع ہیں۔ گویا نعت پڑھ کر یہ احساس نہ ہو کہ شاعر آقایانِ مجازی اور محبوبانِ دنیوی کی مدح سرائی میں کمر بستہ ہے ، بلکہ ایسا متانت آمیز اور تہذیب و شائستگی سے لبریز لہجہ ہو جس سے موضوع ایک ارفع سطح پر پہنچ جائے۔ حزم و احتیاط، تہذیب و شائستگی اور ادب و احترام کی سلیقہ مندی، موضوعِ نعت کے تشکیلی عناصر ہیں۔ مسئلہ ہیئت، صورت یا Form (معروض) کا نہیں بلکہ رحمتِ عالمین کی ذاتِ طیبہ کی سیرتِ منورہ کے ان پہلوؤں کا ہے جس نے کائنات کے پورے انسانی معاشرے میں ایک انقلاب آفریں روح پھونک دی، انسان، انسانیت اور اس کی عزتِ نفس کو توقیر عطا کر دی گئی اور یوں انسان کو درجۂ فضیلت عطا کر دیا گیا۔ صرف 23 سالہ نبوی دور کے مختصر عرصے میں جبکہ جنگ اور غزوات بھی ہیں، یہود و نصاریٰ سے میثاقات، معاہدے اور پنچائتیں بھی ہیں ، آپ کی مقدس عائلی زندگی کے شب و روز کے معمولات بھی ہیں، معاشرے کی ایسی معاشی، تمدنی تطہیر و تربیت ہو گئی کہ بدّو ، بد خُو وحوش مہذب قافلہ سالار بن گئے اور یہ حالت ہو گئی:
——
جس بَن کی سمت دیکھا چمن زار بن گیا
جس ذرّے کو چھوا مۂ انوار بن گیا
ثابت کو مَس کیا تو وہ سیّار بن گیا
جو بھی قدم اٹھایا وہ معیار بن گیا
تاثیر اس کی سانس میں ہے کیمیائی کی
اُس پر نظر لگی ہوئی ساری خدائی کی
——
میرے نزدیک اس عظیم الشان اور جلیل القدر کردار کی رحمت و رافت کا عمدہ لفظوں میں تخلیقی اظہار’’نعت‘‘ ہے ۔ یہ مقام تو ’’باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار‘‘ اور ’’از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر‘‘ کا مقام ہے۔
میں ’’گُلِ سر سبد‘‘ کی کمپوزنگ، تہذیب و ترتیب اور ڈیزائننگ کے لیے سخن سرائے پبلی کیشنز اور خوش فکر شاعر ارشد عباس ذکی کا شکر گزار ہوں۔
——
لولاک لما(نعتیہ مسدس)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حرفِ عجز
——
’’لولاک لما‘‘ پیش خدمت ہے۔ اس طویل نعت کا مسوّدہ ایک سال قبل کتابت ہو چکا تھا۔ لیکن بعض مجبوریوں کے باعث منظر عام پر نہ آسکا اس کی ساری ذمہّ داری مجھ پر ہے یہ شاعری نہیں۔ شاعری کے لیے میرا ذریعہ اظہار ’’غزل‘‘ ہے یہ تو ان گداز جذبوں کا تخلیقی اظہار ہے جو ہر وقت میری ذات کے سمندر میں متلاطم رہے۔ کبھی یہ میرے اشکوں میں منقلب ہو کر بہے۔ کبھی دھڑکن کے ساز میں متشکل ہوئے اور کبھی ان جذبوں نے طویل خاموشی کی ردا اوڑھ لی۔ یہ ساری جذباتی کیفیتیں۔ جو لفظ ’’مُحَمَّدْ‘‘ کے جمال اور جلال کو شعور ووجدان کے سامنے رکھنے سے پیدا ہوتی ہیں۔
مکہّ کے تیرہ بخت لوگ چراغِ ہدایت کے دشمن ہو گئے۔ حتیٰ کہ ہجرت کا حکم ہو گیا آپ اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ مکہّ سے مدینہ کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ مدینہ کے گلی کوچوں میں جب مہتابِ محبت کی کرنیں پھیلیں تو دروبام پر ایڑھیاں اٹھا اٹھاکر دیکھنے والی معصوم بچیوں نے یہ گانا شروع کر دیا۔
——
طلع البدر علینا من ثنیات الوداعٰ
وجب الشکر علینا مادعا اللہ داعٰ
ایھا المبعوث فینا جئت بالا مرمطاعٰ
——
نعت کے یہ چھ مصرعے جو بنیادی طور پر استقبالیہ جذبات کے حامل ہیں پڑھ کر یہ سوال میں نے کئی بار اپنے آپ سے کئے ہیں۔
۱۔ یہ کہ معصوم بچیوں کو شعر گوئی کا شعور کس نے دیا۔
۲۔ یہ کہ اتنی فنی مہارت اور چابک دستی کم سنوں میں کیوں کر آگئی۔
ماضی بعید میں یہ سوالات میں کئی بار اپنے آپ سے کر چکا ہوں۔ لیکن جب میں اس عمل سے خود گزرا اور پھر مشاہدئہ باطن کا ہنر بھی مجھے آیا تو ان سوالات کا جواب مجھے خودبخود مل گیا۔ جذبے کی شدت لفظوں کو خود حسنِ ترتیب دے دیتی ہے۔ جذبہ فن کا پیش رَوہے۔ جذبے کی صداقت فن کی ارفعیت کو جنم دیتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس بات کو اس طرح سمجھنا زیادہ آسان رہے گا کہ جذبہ پہلے ظہور میں آتا ہے اور فن کے سانچے بعد میں وضع ہوتے ہیں۔ دریا کا پانی اپنے فطری بہاؤ کے ساتھ بہتا ہے اور چلتے چلتے وہ رتیلی مٹی پر ایسے ایسے نقش چھوڑتا جاتا ہے کہ انسان کی مصوّر آنکھ اُسی رتیلی مٹی پر عجیب و غریب تصویریں، نقشے اور خاکے تلاش کر لیتی ہے۔ اب بات یہاں تک پہنچی کہ جذبہ اپنی صنف۔ اسلوب اور ہیئت خود وضع کر لیتا ہے۔ اور اسی کے مطابق الفاظ بھی منتخب کر لیتا ہے۔
یہاں میں ایک سوال کی اجازت چاہوں گا کہ اگر شاعری میں جذبے کی حکمرانی کو اسی طور پر تسلیم کر لیا جائے تو عروض۔ بحور۔ علم الکلام۔ اور علم البیان جیسے وقیع علوم بے معنی نظر آئیں گے۔ یہ بات اپنی جگہ ضروری ہے کہ تخلیق کی خانہ بندی کرتے وقت ہمیں ان پیمانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاہم انہی کی بنیاد پر تخلیق کرنا نہ تو لازمی ہے نہ سود بخش۔ گویا تخلیق شعر میں خالص‘ شفاف اور مخلص شعری جذباتیت جس میں شعور کا گہرا رچاؤ اور مشاہدات کا ایک منطقی اور فطری عنصر کارفرما ہونا ضروری ہے یوں جذبے کی صداقت۔ تجربے کی پختگی اور فطرت کا قریبی اور وجدانی مشاہدہ ملِ کر تخلیق شعر کی اساس بنتے ہیں۔ بعد میں اس تخلیق کا جو چاہے نام رکھ لیجئے اس طرح صنف اور ہیئت دوسرے درجے کی چیز رہ جاتی ہے۔
نعت گوئی کا آغاز خود قرآن مجید نے وَرَ فَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ۔ اور اِنَّ اللہَ وَمَلٰئِکَتَہ‘ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیّ ط یٰایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اصَلُّوْ عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً۔ کہہ کر دیا تھا۔ قرآن پاک نے تو ایمان والوں کے لئے یہ امر نازل کیا تھا لیکن ہم کو علم ہے کہ دنیا کے ہر مذہب کے اُردو اور فارسی شعراء نے نعت کے ایسے عمدہ اشعار کہے ہیں کہ روح و وجدان جھومنے لگتے ہیں۔ ربّ کونین نے خود رسول اکرم کی مدحت سرائی کی اور اس کے لئے ہم سب کو حکم دیا چنانچہ نعت گوئی ہم سب اہل قلم کا فریضہ بنتا ہے۔ اسلوب نعت کے بارے میں تو مَیں نے اپنی تَمہیدی گفتگو میں اظہار کردیا اب رہی بات موضوعات کی سو یہاں میں مروّجہ اصولِ نعت سے مختلف رویہّ رکھتا ہوں۔
ہمارے ہاں اردو ادب میں دیوان مرتّب کرتے وقت حمد و نعت کے اشعار شروع شروع میں تبّرک کے طور پر کہے جاتے تھے۔ پوری ادبی تاریخ میں دو، تین گنتی کے ایسے شعراء دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اپنی فکر کا محور مکمل طور پر رسول کریم کی ذاتِ اقدس کو ٹھہرایا اور محض نعت گوئی کی۔ مثلاً محسن کا کوروی اور حضرت احمد رضا خاں بریلویؒ ایک دو شاعر ایسے بھی ہیں جن کے نظامِ فکر پر مجموعی طور پر اسلامی رویوّں۔ تاریخ و ثقافت اور اسلامی طرز احساس کی چھاپ ہے مثلاً علاّمہ اقبال۔ ظفر علی خاں اور حالی۔
یہ دَور نعت کا دَور ہے لیکن کثرت کسی فعلیت کے لیے جہاں ممد ثابت ہوتی ہے وہاں کچھ قباحتیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ نعت گوئی کے سلسلے میں بھی ایسا ہوا۔ رسولِ اکرم کی حیات طیبّہ ایک ایسی روشن کتاب ہے جس سے زندگی کو نور، فکر کو طہارت اور عزم کو منزل ملتی ہے۔ آپ نے ہر تاریکی کے خلاف جہاد کیا۔ اور ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کا جواب پوری انسانی تاریخ کے پاس نہیں ہے۔ لیکن ہماری نعت کا ایک بہت بڑا حصّہ نبی مکرم کے پیکر کے زاویوں اور خدوخال کی وضاحت کے لئے وقف ہے۔ کیوں؟ آپ کے قدو قامت کی تعریف، زلف و رخسار کی تشریح۔ چشم و ابرو کا بیان آخر اس کا کیا جواز ہے۔ اس ساری گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ایسی کرنے سے محسنِ انسانیت کا جو پیکر مجموعی طور پر سامنے آتا ہے وہ غزل کے روایتی محبوب سے مختلف نہیں ہے۔
مجھے یقین ہے کہ میرے شعورِ عشق کی طرح آپ کی عقیدت کا جذبہِ تپیدہ بھی اس قبیل کی نعتیہ شاعری کی اجازت نہیں دیتا۔ نعت کا یہ وہ نازک مقام ہے جہاں غالب سانکتہ داں کہتا ہے کہ۔
——
غالب ثنائے خواجہ بہ یزادں گذا شیتم
کآں ذات پاک مرتبہ دانِ محمد است
——
سو جناب پہلی عرض تو یہ ہے کہ مدحت طرازی کے لمحے میں پیکر رسول مقبول کے بیان کے موضوع سے گریز نعت کے تقدس کے لیے ضروری ہے۔
دوسری بات اگرچہ بہت نازک ہے لیکن چونکہ بات چل نکلی ہے تو اس کا اظہار بھی ہو جائے۔ حالی نے مقدمہ لکھ کر اردو میں نقد و نظر کا بنیادی پتھر نصب کر کے آنے والوں کے لئے اعتباری راہیں متعین کر دی ہیں۔ اور اب تنقید اپنے نقطہ بہار پر ہے۔ نعت چونکہ بڑا مقدس اور مبارک فن ہے۔ اس لئے اس پر تنقیدی قلم اٹھاتے ہوئے ہر کوئی خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس خوف سے جو نقصا ن ہو رہا ہے۔ اس کا بار ہر اہل قلم پر ہے۔ نعت کے ہر مضمون پر بلا جواز آمنّا وصَدّ قَنا کہنا میرے خیال میں نعت کی خدمت نہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اگر نعت کے لئے کوئی تنقیدی پیمانے مقرر نہ کئے گئے تو نعت گوئی کا بے سمت قافلہ دُور جانکلے گا۔ ادبی انجمنوں میں ہونے والی برساتی تنقید کو میں نہ تو معیاری سمجھتا ہوں نہ غیر جانب دار نہ صحت مند اور نہ معتبر مطلب براری کے ان گروہوں کی تنقید کا تو خیر مذکورہی کیا قرطاس و قلم کی موجودہ تنقید بھی اپنا اعتبار کھو چکی ہے۔ لیکن تنقید کے اس انبار سے بعض ایسی دیرپا چیزیں تلاش کی جاسکتی ہیں جو ایک طرف غیر ضروری بے سمت رفتار کے لئے لگام ہیں اور دوسری جانب رہوارِتخلیق کے لئے مہمیز کا کام دیتی ہیں مقصود کلام یہ ہے کہ نعت گوئی کے تنقیدی دبستان کا اجرانعت کے موجودہ دَور کے لئے ضروری ہے۔
میں نے اب تک جو باتیں کی ہیں وہ تخصیصی نوعیت کی ہیں جن کا تعلق زیادہ تر میری ذاتی فکر اور سوچ سے ہے اور اب آخری بات جو میں کرنے والا ہوں وہ تعمیمی ہے۔ ایک بار میرے ایک مہربان نے یہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ نعت کہنا ’’شاعری‘‘ نہیں۔ ان کا نقطہ نظر وہی گِھسا پٹا تدریسی سبق ہے جو یہ بتاتا ہے کہ شاعری میں وعظ و نصیحت نہ ہو یہاں تک تو میں بھی اتفاق کرتا ہوں اور آپ بھی کرتے ہوں گے۔ لیکن فتویٰ صادر فرمانے والے اس سے بہت آگے نکل گئے ہیں اگر ادب سے زندگی تفریق کی جاسکتی ہے تو پھر شاعری سے نعت کونکالنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ خود ادب برائے زندگی کے پرچارک ہیںتو یہ نہایت مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ زندگی کی سَحر کو دین کے نور سے کیسے محروم کر رہے ہیں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ نئی نسل کے اس احساس کا رخ موڑا جائے۔ کہ نعت شاعری کے زمرے سے خارج ہے اور اس کا حل میری دوسری گزارش میں موجود ہے۔ اگر ہم نعت گوئی کا فروغ چاہتے ہیں اور سیرت طیبّہ کی قندیل کی روشنیاں عام کرنا چاہتے ہیں تو نعت میں ایسے مضامین کی حوصلہ افزائی کی جائے جن کا تعلق اسوئہ حسنہ سے ہے۔ جن کا واسطہ رحمتِ عالم کی انقلاب آفریں حیات سے ہے۔ جن کا رشتہ اخلاق نبوی سے ہے۔ جن کا علاقہ عقیدت و محبت کے متوازن جذبوں سے ہے۔ جن مضامین سے انسانی ذات میں تحقیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ جن سے دلوں میں موّدت اور احترام کے الاؤ سلگتے ہیں۔ اور جن سے ایمان کی کلیاں مہکتی ہیں۔
’’لَولاک لَما‘‘ کی اشاعت کے سلسلے میں جناب پروفیسر عاصی کرنالی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مسوّدے پر نظر ثانی کی۔ قاری محمد عبدالسلام قاسمی کا ممنون ہوں کہ انہوں نے ’’لَولاک لَما‘‘ کی خلوص اور محبت کے ساتھ کتابت کی۔ عزیزی شوذب کاظمی کا ممنون ہوں کہ انہوں نے کتاب کی پروف ریڈنگ کی اور املاء کی غلطیوں کی نشان دہی کی۔
——
سخن سرائے پبلی کیشنز۔ ملتان
جملہ حقوق محفوظ ہیں:
اس کتاب کا کوئی حصہ بھی پبلشر/ مصنف کی باقاعدہ تحریری اجازت کے بغیر کہیں بھی شائع یا براڈکاسٹ نہیں کیا جا سکتا۔
اگر اس قسم کی کوئی بھی صورتحال پیش آئی تو پبلشر/ مصنف کو قانونی کارروائی کا حق حاصل ہو گا۔
کتاب – گُلِ سر سبد
شاعر – انور جمال
اشاعت اوّل – فروری 2022ء
سرورق – ارشد عباس ذکی
کمپوزنگ – حسن کمپوزنگ، گلگشت ملتان
تعداد – 300
قیمت – 600 روپے
پرنٹر – رحمان شفیق پرنٹنگ پریس ، ملتان
بائنڈر – ندیم انور بک بائنڈنگ، ملتان
گُلِ سر سبد کا مطالعہ کرنے کے لیے کلک کریں :
گُلِ سر سبد