اردوئے معلیٰ

ہر رات ہے پُر نور ہر اک صبح سہانی

دیکھی ہے ترے شہر کی وہ نور فشانی

 

کیوں اور کسی در پہ کروں اپنی جبیں خم

جب آپ سے ملتا ہے مجھے دانہ و پانی

 

ہے کتنا گراں مایہ زرِ خاکِ مدینہ

اُس شہر کا ممکن ہی نہیں ہے کوئی ثانی

 

پوچھیں گے نکیرین جو مَاکُنْتَ تَقُوْلُ

ان کو بھی جواباً ہے تری نعت سنانی

 

اُن کا ہوں غلام اُن کے ہی نعلینِ کرم بار

سینے پہ سجاتا ہوں سند بہرِ نشانی

 

جو روشنی گنبد سے شب و روز عیاں ہے

مخرج ہے ہرا، اس کا تبھی رنگ ہے دھانی

 

ہے حکمِ شریعت کہ نہ ہو سجدۂ تعظیم

دل کرتا رہا سجدے مری ایک نہ مانی

 

وہ اذنِ حرم دستِ کرم سے مجھے دیں گے

ہر نعت میں لکھتا ہوں تبھی ہجر کہانی

 

منظر یہ نہیں مشقِ سخن، خونِ جگر ہے

یہ عجز بیانی ہے مری عجز بیانی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات