رمضان المبارک کی برکات و تجلیات
یہ رحمت ہے خدا کی، اپنا جو عرفان بخشا ہے
ہماری بخششوں ہی کیلئے رمضان بخشا ہے
اتاریں سب کتابیں آسمانی اس مہینے میں
جو قرآنِ مجسم ہیں ، انہیں قرآن بخشا ہے
ہے کفارہ یہ روزہ سب گناہوں کا، تو پھر مانو
خدا نے روزے داروں کو علی الاعلان بخشا ہے
ثواب و اجر روزے کاہے کیا؟ یہ تو خدا جانے
کُھلیں گے در خزائن کے یہ اطمینان بخشا ہے
وہ سحری ہو یا افطاری، ضیافت جسم و جاں کی ہے
سجا کر نعمتوں سے رب نے دسترخوان بخشا ہے
ہر اک نیکی کا ہے ستر گنا اجر و ثواب اس میں
ہماری بخششوں ہی کے لئے رمضان بخشا ہے
ہے اس میں روزے داروں کے لئے دُہری خوشی مضمر
خدا نے اپنی خوشنودی کا بھی سامان بخشا ہے
ہے ڈھال ایسی بچاتی ہے برائی اور دوزخ سے
نہیں لُٹ سکتا جو سرمایۂ ایمان بخشا ہے
جہادِ نفس کا مقصد نری پرہیز گاری ہے
کٹھن منزل سہی پر راستہ آسان بخشا ہے
ہے مالا مال اس کا پہلا عشرہ بھی تو رحمت سے
یہ عشرہ اس نے اپنی شان کے شایان بخشا ہے
جلا سکتی نہیں مومن کو بے شک آگ دوزخ کی
ہماری منتظر جنّت ہے، یہ ایقان بخشا ہے
جو دروازے ہیں کھل جاتے ہیں جنّت اور رحمت کے
خدا نے یوں بھی بخشش کا بڑا سامان بخشا ہے
جو روزے دار کے ہے منہ کی خوشبو رب کو بھاتی ہے
خدا نے مرتبہ صائم کو عالی شان بخشا ہے
بہت سی نعمتیں یہ ساتھ اپنے لے کے آتا ہے
خدا نے تیس روزہ خوب یہ مہمان بخشا ہے
جو سچ پوچھو تو یہ سردار ہے سارے مہینوں کا
خزینوں کو لٹانے کے لئے سلطان بخشا ہے
دعا افطار تک سارے فرشتے کرتے رہتے ہیں
خدا نے صبر کا بھی تو اسے عنوان بخشا ہے
سحر سے رات تک اور رات سے پھر دن نکلنے تک
برستی ہیں مسلسل رحمتیں، ہر آن بخشا ہے
یہ روزہ کیا ہے؟ سچ پوچھو زکوٰۃ اپنے بدن کی ہے
طہارت کے لئے جاں کی بڑا سامان بخشا ہے
جو روزے دار ہے، اس کی دعائیں رد نہیں ہوتیں
ذرا سوچو تو رب نے کیا ہمیں ایقان بخشا ہے
ہمارے دل کی آنکھیں کھول دی ہیں اِس مہینے نے
بصیرت دل کو بخشی، روح کو وِجدان بخشا ہے
نوازشات کی برسات ہے، کیا بات ہے مولا
گنہگاروں کو بھی تو نے بہرعنوان بخشا ہے
اگر چاہیں خزانے لوٹ لیں ہم دو جہانوں کے
نہیں تنگی کوئی، اُس نے کھلا دامان بخشا ہے
عبادت ہے، ریاضت ہے، مزے بھی رتجگے کے ہیں
تہجّد میں بھی لطف و کیف کاسامان بخشا ہے
وہ سحری ہو یا افطاری، نری برکت ہی برکت ہے
ہماری عید کی تمہید ہے، کیا خوان بخشا ہے؟
کھلیں حمداً کثیراً طیباً کہتے ہوئے کلیاں
بہاریں آئیں تو صحرا کو نخلستان بخشا ہے
چلو اشکوں سے دھو لیں داغ اپنے سب گناہوں کے
جو ہے غفّار، اس نے یہ مہِ غُفران بخشا ہے
بجھے گی پیاس اب آنکھوں کی دیدارِ الہیٰ سے
کہ روزے داروں کو رب نے دَرِ ریّان بخشا ہے
ہم اشکوں سے بجھا سکتے ہیں بے شک آگ دوزخ کی
یونہی تو آخری یہ عشرۂ رمضان بخشا ہے
مری تسبیحِ روز و شب ہے، جس کے دانے دانے کو
خدا نے اعتبارِ لولو و مرجان بخشا ہے
ابھی سے تھام دامانِ نبیٔ رحمتِ عالم
محمد کو خدا نے حشر کا میدان بخشا ہے
خدا کے در پہ دھرنا ہے، یقیناً اعتکاف اپنا
جو مانگو گے، وہ دے گا، جس نے یہ رمضان بخشا ہے