ہم کو دامن اُن کو گنجِ شائگاں بخشا گیا
یوں فقیروں کو وہ دستِ مہرباں بخشا گیا
آدمی کو اُن کے صدقے نعمتِ عظمیٰ ملی
دینِ برحق کا شعورِ جاوداں بخشا گیا
جس نے اُن کی پیروی کا ہر قدم رکھا خیال
وہ تو محشر میں بِلا ریب و گماں بخشا گیا
چلچلاتی دھوپ، دشتِ بے کراں، انساں فگار
ایسے لمحے رحمتوں کا سائباں بخشا گیا
فکرِ انساں کو عطا کرنی تھی وسعت اس لیے
صورتِ قرآن، علم بے کراں بخشا گیا
روضۂ اطہر کی صورت اے زمیں والو تمہیں
اِک ریاضِ نور، صد رشکِ جناں بخشا گیا
مدحتوں کے پھول کھل جاتے ہیں لفظوں میں عزیزؔ
اُلفتِ آقا کے صدقے، گلستاں بخشا گیا