ہوا نہ تارِ تنفس میں ارتعاش تلک
بچھڑ گیا ہے کوئی اس قدر خموشی سے
حیات سر کو جھکائے کھڑی ہے صحرا میں
کہ باز آ نہ سکا قیس سر فروشی سے
ملا ہے عکس سرِ آئینہ اگرچہ ابھی
ملا نہیں ہے مگر خاص گرمجوشی سے
زمینِ آتش و آہن تو پار کرنی ہے
وجود چور سہی خانماں بدوشی سے
ہزار عیب سہی مجھ میں پر خدا میرے
میں جانتا ہوں تجھے تیری عیب پوشی سے