یہ نارسائی کی ڈوریں تو کٹ گئیں مجھ سے

مگروہ رونقیں کچھ دور ہٹ گئیں مجھ سے

تمہارا قرب بھی کیا چیز تھا مگر افسوس

اخیر وقت میں سانسیں بھی گھٹ گئیں مجھ سے

میں اک غبار ِتمنائے سوز ِ غم طلبی

تمام شہرکی دیواریں اٹ گئیں مجھ سے

وہ ہاتھ شرم و حیا کے سبب بندھے ہوئے تھے

سو یوں ہوا کہ وہ آنکھیں لپٹ گئیں مجھ سے

یہی ہوا کہ میں دیوار ہو گیا آخر

تمھاری یاد کی بیلیں لپٹ گئیں مجھ سے

یقین کرنا پڑا، ہو گیا ہوں میں پتھر

صدائیں چھو کے تری جب، پلٹ گئیں مجھ سے

میں ایک دشت میں غم چھوڑنے گیا تھا زبیرؔ

کسی کی چھوڑی بلائیں چمٹ گئیں مجھ سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]