عشق کو حسن کے انداز سکھا لوں تو چلوں

منظرِ کعبہ نگاہوں میں بسا لوں تو چلوں

اپنے محبوبِ حقیقی کو منا لوں تو چلوں

اپنی بگڑی ہوئی ہر بات بنا لوں تو چلوں

کھینچتا ہے ابھی قدموں کو منافِ کعبہ

پیاس تلووں کی ابھی اور بجھا لوں تو چلوں

کر لوں اک بار ذرا پھر سے طوافِ کعبہ

روح کو رقص کے انداز سکھا لوں تو چلوں

درِ کعبہ سے پھر اک بار لپٹ کر رو لوں

اور کچھ اشک ندامت کے بہا لوں تو چلوں

چوم لوں بڑھ کے پھر اک بار غلافِ کعبہ

تشنگی ہونٹوں کی کچھ اور بڑھا لوں تو چلوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]