آمد ہے آج عرش بریں پر حضور کی
افلاک نور کے ہیں، زمینیں ہیں نور کی
اللہ کے حضور طلب ہے حضور کی
خلوت میں نور سے ہے ملا قات نور کی
اس آب و تاب سے شب معراج آئی ہے
گویا کھلی ہوئی کوئی چوٹی ہے حور کی
کیا انتظار جلوہ ذات احد کو ہے
کیا لو لگی ہے ان کی طرف شمع طور کی
جبریل کہہ رہے جگا کر ادب کے ساتھ
چلیے شتاب، یاد ہوئی ہے حضور کی
مردوں کے جاگے بخت کہ سوتے ہیں چین سے
راہیں ہیں آج بند عذاب قبور کی
جنت کے در کھلے ہیں، جہنم کے بند ہیں
وہ دیکھو بخشی جاتی ہے امت حضور کی
تاروں کی چھاؤں فرش ہے قصد عرش کا
چشم و چراغ کعبہ کو سوجھی ہے دور کی
پایا ہے کیا نبی نے فلک سیر باد پا
پہلا قدم جہاں ہے وہ چوٹی ہے طور کی
بندوں کو فکر حشر سے آزاد کر دیا
مولا نے فکر خاطر مولیٰ دور کی
تم ہو بشیر حافظ بیکس گنہ گار
دید و بشارت اس کو بھی عفو قصور کی