اب جھٹک دیتی ہوں تیری یاد میں
اپنے فن میں ہوگئی استاد میں
قاف کا دنیا سے رشتہ جوڑ مت
تو پری زادہ ہے آدم ذاد میں
چھوڑ ہجراں کی اذیت ، بھول جا
خوش رہے تو بھی ، رہوں آباد میں
قتل کردیں کتنی ساری خواہشیں
دل بہت معصوم سا ، جلاد میں
چاہے اچھی ساتھ میں فوٹو لگا
شعر اچھا ہو تو دونگی داد میں
پہلے اس سے کہہ دیا "رخصت " جناب
ٹوٹ کر روئی ہوں اس کے بعد میں
آئینے میں اپنے جیسی شکل کو
خوش ہوئی ہوں ، دیکھ کر ، برباد میں
جو قسم دی تھی تجھے وہ توڑ کے
کررہی ہوں عشق سے آذاد میں