اس لیے عشق کے احسان سے ڈر لگتا ہے

اب کسی خواب کے اعلان سے ڈرلگتا ہے

لطف وہ لذتِ ہجراں میں ملا ہے مجھ کو

اب ترے وصل کے امکان سے ڈر لگتا ہے

یہ جمع پونجی کمائی ہے مری چاہت کی

اس لئے بھی مجھے نقصان سے ڈر لگتا ہے

کوزہ گر میں ہوں ترے چاک سے اترا ہوا وقت

جس کو تشہیر سے ، پہچان سے ڈر لگتا ہے

دل ،یہ پہلے بھی مری جان کو آیا ہوا ہے

ہاں مجھے اب اسی نادان سے ڈر لگتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]