انتساب

اُس سے منسوب کروں
اُس کی ہی نذر میں سب گزرانوں
یہ عقیدت کے گلاب اور سمن
جو ہے محبوبِ زمن
جو ہے مطلوبِ چمن
جو نبوت کا اَمیں ٹھہرا تھا
اس گھڑی!
جب کہ ابھی آدمؑ بھی
آب اور گِل سے نہیں گزرا تھا
کل بھی تھیں اس کی طرف… عشق کی نہری جاری
آج بھی سیلِ عقیدت ہے اُسی سمت رواں

میں بایں دیدۂ حیراں … اُسی جانب نگراں
میرے ہرجذبۂ الفت کا
وہی سرچشمہ
میرے احساس کی قندیل
اسی سے روشن
وہ شہہِ دشت و دمن
وہ شہنشاہِ سخن
جس کے تکلم میں بسی تھی خوشبو
جس کے الفاظ میں تنویرِ رسالت کی جھلک
تا بہ ابد
وہ نظر دیکھ سکے گی جس کو
تابِ نظارگیٔ حسنِ صداقت ہوگی
وہ نظر کتنی قیامت ہوگی!!!
اُس کا پیغام دلوں کی دھڑکن
از کراں تابہ کراں
اُس کی عقیدت کے نشاں
روشن تر

وہ شہِ جن و بشر
زینتِ شمس و قمر
اُس کی رحمت کا شجر
دھوپ کے دشت میں
ہر شخص کی منزل ٹھہرا
آدمی بن کے جو آیا تو
دریں ارض و سما
بس وہی کامل ٹھہرا
قریۂ جاں میں وہی نور شمائل ٹھہرا
زیست کا حاصل ٹھہرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]