اندھیرے میں سیہ شب ہوں کسی شب مجھ میں بس بھی

اگر تو ابر ہے تو ٹوٹ کر مجھ پر برس بھی

تجھے تصویر کرنے کی اجازت چاہتا ہوں

ہے میرے پاس ایزل بھی ، برش بھی ، کینوس بھی

میں تیرے دھیان سے کیسے نکل پاتا کہ جب تھے

ترے پابند میرے دائیں بائیں ، پیش و پش بھی

فقط اس کے ہی بالوں سے گلاب اُترے نہیں ہیں

ہوئی عاری گلوں سے میرے دل کی کارنس بھی

سلگتی ریت پر رَم کا بڑا تھا شوق مجھ کو

ذرا اے ریگِ صحرا ! اب مِرے پاؤں جھلس بھی

ہوائے شہر کے تیور بدلتے جا رہے ہیں

محبت کے لبادوں میں جنم لے گی ہوس بھی

سفر کی چاہ ہے تو نوچ مت اپنے پروں کو

نہ دیں گے ساتھ تیرا بے پری میں ہم قفس بھی

سپیرے نے پٹاری کھول دی یہ کہہ کے اشعرؔ

مجھے نیلا فلک ہونا ہے کالے ناگ ڈس بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]