اگر العطش لب پہ ہم باندھتے ہیں

وہ دامن سے کتنے ہی یم باندھتے ہیں

جبیں باندھتے ہیں درِ مصطفیٰ پر

نہ اس سے زیادہ نہ کم باندھتے ہیں

انہیں سربلندی ملی دو جہاں کی

سروں پر جو دستارِ خم باندھتے ہیں

فلک سے اترتے ہیں نعتوں کے مصرعے

کہاں ہم بزورِ قلم باندھتے ہیں

مدینے میں صبحِ منور کی خاطر

شبِ ہجر پلکوں سے نم باندھتے ہیں

ولادت کی شب بیتِ معمور پر بھی

فرشتے خوشی کا علم باندھتے ہیں

کبھی پھر نہ آئے گدائی کی نوبت

وہ پلّو میں اتنا کرم باندھتے ہیں

چمک جائے گا نورِ نعلین سے دل

اسے زیرِ نقشِ قدم باندھتے ہیں

عطا ہے، یہ اسلوبِ مدحت سرائی

نہیں کوئی مصرع جو ہم باندھتے ہیں

وہی تو حسینی ہیں اشفاقؔ احمد

جو سینے میں کربل کا غم باندھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]