اگر العطش لب پہ ہم باندھتے ہیں
وہ دامن سے کتنے ہی یم باندھتے ہیں
جبیں باندھتے ہیں درِ مصطفیٰ پر
نہ اس سے زیادہ نہ کم باندھتے ہیں
انہیں سربلندی ملی دو جہاں کی
سروں پر جو دستارِ خم باندھتے ہیں
فلک سے اترتے ہیں نعتوں کے مصرعے
کہاں ہم بزورِ قلم باندھتے ہیں
مدینے میں صبحِ منور کی خاطر
شبِ ہجر پلکوں سے نم باندھتے ہیں
ولادت کی شب بیتِ معمور پر بھی
فرشتے خوشی کا علم باندھتے ہیں
کبھی پھر نہ آئے گدائی کی نوبت
وہ پلّو میں اتنا کرم باندھتے ہیں
چمک جائے گا نورِ نعلین سے دل
اسے زیرِ نقشِ قدم باندھتے ہیں
عطا ہے، یہ اسلوبِ مدحت سرائی
نہیں کوئی مصرع جو ہم باندھتے ہیں
وہی تو حسینی ہیں اشفاقؔ احمد
جو سینے میں کربل کا غم باندھتے ہیں