اردوئے معلیٰ

Search

اگر العطش لب پہ ہم باندھتے ہیں

وہ دامن سے کتنے ہی یم باندھتے ہیں

 

جبیں باندھتے ہیں درِ مصطفیٰ پر

نہ اس سے زیادہ نہ کم باندھتے ہیں

 

انہیں سربلندی ملی دو جہاں کی

سروں پر جو دستارِ خم باندھتے ہیں

 

فلک سے اترتے ہیں نعتوں کے مصرعے

کہاں ہم بزورِ قلم باندھتے ہیں

 

مدینے میں صبحِ منور کی خاطر

شبِ ہجر پلکوں سے نم باندھتے ہیں

 

ولادت کی شب بیتِ معمور پر بھی

فرشتے خوشی کا علم باندھتے ہیں

 

کبھی پھر نہ آئے گدائی کی نوبت

وہ پلّو میں اتنا کرم باندھتے ہیں

 

چمک جائے گا نورِ نعلین سے دل

اسے زیرِ نقشِ قدم باندھتے ہیں

 

عطا ہے، یہ اسلوبِ مدحت سرائی

نہیں کوئی مصرع جو ہم باندھتے ہیں

 

وہی تو حسینی ہیں اشفاقؔ احمد

جو سینے میں کربل کا غم باندھتے ہیں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ