جس کا سر محمد کے در پہ خم نہیں ہوتا
ایسا شخص کچھ بھی ہو، محترم نہیں ہوتا
بھیک تجھ سے پاتے ہیں، رنگ و نور کی، ورنہ
موسموں کا پھیکا پن ،مختتم نہیں ہوتا
جو درود پڑھ کر بھی، قلب و جاں میں رہ پائے
ایسا دکھ نہیں ہوتا، ایسا غم نہیں ہوتا
اے شہِ امم تیرا، نام کیسے لکھ ڈالوں
جب تلک سیاہی میں، مشک ضم نہیں ہوتا
وِرد اسمِ سرور کا، اندمال بنتا ہے
ورنہ دل کے زخموں کا، درد کم نہیں ہوتا
ہر کسی کو مدحت کی، نوکری نہیں ملتی
نعت بھی نہیں ہوتی، گر کرم نہیں ہوتا
بے کلی مرے دل کی، اور بڑھتی جائے گی
جب تلک درودوں کا، مجھ پہ دم نہیں ہوتا