اے فاتحِ اَقفالِ درِ غیب و حضوری

قفلِ درِ وصلت بھی کھلے ، دور ہو دوری

ہے تا بہ کجا قسمتِ پروانہ میں جلنا ؟

اے شمعِ فروزاں سرِ تمدیحِ غَفوری

ہے سارے عناصر کو ملا حصّۂ رحمت

آبی ہوں کہ خاکی ہوں کہ ناری ہوں کہ نوری

مختارِ مکانات و زمانہ کے کرم سے

عُجلت سے اُگا اور پکا باغِ کھجوری

ہے قوّتِ مردانِ خداوند تِرا ہاتھ

اور خاکِ کفِ پا ہے تِری غازۂِ حُوری

اے آں ! کہ مطافِ مہ و مہر و صفِ انجم

ہے ذات تِری قبلۂ بَرِّی و بحوری

موسائے تعقّل کو کِیا خضرِ رہِ فَوز

اللہ رے تری تربیتِ بطن و ظہوری

یوں لقمۂِ تر تو نے غلاموں کو کِھلایا

ماں جیسے کِھلائے کوئی اولاد کو چُوری

سب تیری فقاہت کے سمندر کا ہیں قطرہ

ہوں چاروں ائمہ کہ ہوں شامی کہ قدوری

قطرے کا بھی یہ قول ہے بس بہرِ تمثل

ورنہ تو ہے مابین زمانوں کی سی دوری

اِک باغ کے سب پھول ہیں ،گو رنگ الگ ہیں

استادِ زمن ہوں کہ معظمؔ ہو کہ نوری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]