آج پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے نامور شاعر، صحافی اور کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی کا یومِ پیدائش ہے ۔

——
ڈاکٹر اجمل نیازی 16 ستمبر 1946ء کو موسی خیل (ضلع میانوالی) میں پیفا ہوئے، گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں طالبعلمی کے دوران راوی اور محور کی ادارت کی، مختلف مجالس سے وابستگی رہی، گارڈن کالج راولپنڈی اور گورنمنٹ کالج میانوالی میں لیکچرار رہے، بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور اور ایف سی کالج میں تعینات رہے، روزنامہ نوائے وقت میں بے نیازیاں کے عنوان سے کالم لکھتے رہے ہیں، 45 سال صحافتی و ادبی خدمات انجام دیں۔
——
تصانیف
——
مندر میں محراب (1991ء، سفرنامہ بھارت)
جل تھل (1980ء، تذکرہ شعرائے میانوالی )
محمد الدین فوق (1987ء، کتابیات)
بے نیازیاں (کالمز کا مجموعہ)
مجموعہ مقالات (سونح حمید نظامی)
——
اجمل نیازی ورلڈ کالمسٹ کلب کے سرپرست مقرر کیے گئے، حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا۔
ڈاکٹر اجمل نیازی 75 سال 1 ماہ کی عمر میں طویل علالت کے بعد 18 اکتوبر 2021ء کو علی الصبح 2 بجے لاہور میں وفات پاگئے ۔
——
اجمل نیازی از امجد اسلام امجد
——
میانوالی کی تحصیل موسیٰ خیل سے آئے ہوئے گورے چٹے‘ دبلے پتلے اور ایک مخصوص انداز کی بیٹھی ہوئی آواز والے اجمل نیازی سے پہلی ملاقات ستر کی دہائی کے آغاز میں ہوئی۔
——
یہ بھی پڑھیں : کوثر نیازی کا یومِ پیدائش
——
وہ اس وقت ایم اے اردو کر رہا تھا اور غالباً گورنمنٹ کالج کے مشہور مجلے ’’راوی‘‘ کا ایڈیٹر بھی تھا اور نیازیوں میں اس کے محبوب اور سرپرست مولانا عبدالستار خان نیازی اور منیر نیازی ہوا کرتے تھے، جن سے اس کی محبت اور عقیدت تا عمر قائم رہی۔ اس زمانے تک ابھی تعلیم کے میدان میں سینئرز کی عزت اور ان کی قربت سے سیکھنے کا رواج موجود تھا۔ چنانچہ عمر اور سنیارٹی کے بہت معمولی فرق کا بھی بہت احترام کیا جاتا تھا۔ اور پھر وہ تو آیا بھی ایک ایسی دیہاتی کلچر سے تھا جہاں شہروں کی نسبت قدروں کی پاسبانی کا رواج زیادہ محکم تھا۔
ان دنوں وہ بولتا کم اور سنتا اور پڑھتا زیادہ تھا، اس پر مستزاد اس کی طبیعت کا حجاب اور ایک مخصوص انداز کی جھجک تھی جس کی وجہ سے اس کی شخصیت کے بہت سے جوہر نسبتاً دیر سے کھلے لیکن اس کی ہر بات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ بہت آگے تک جانے کی صلاحیت رکھتاہے۔
ادبی برادری میں اس کا پہلاتعارف بطور شاعر ہوا اور بہت جلد اس نے اپنی نسل کے شعرأ میں اپنی پہچان بھی مستحکم کر لی مگر اس کی شہرت کا سبب اور تخلیقی صلاحیت کا زیادہ بھرپور اظہار اس کی نثر ہی بنی جس کا آغاز اس کے سفر نامۂ بھارت ’’مندر میں محراب‘‘ سے ہوا جس میں اس کے ہم قافیہ متبادلات کے خوبصورت اور برمحل استعمال کا جوہر کچھ اس انداز سے سامنے آیا کہ پھر وہ اس کی نثر کی پہچان بنتا چلا گیا۔
بہت کم لوگ الفاظ کی تکرار کے باوجود بیان کی تازگی کو اس جیسی مہارت اورخوش اسلوبی سے قائم رکھ پاتے ہیں کہ کہیں بوجھل پن کااحساس پیدا نہیں ہوتا۔ ساری عمر شہروں میں گزارنے کے باوجود وہ اندر سے بقول اس کے اپنے، ایک پکا ’’پینڈو‘‘ تھا کہ دیہاتی اور قبائلی کلچر کی سادگی‘ گہرائی‘ سچائی اور وارفتگی زندگی بھر اس کی شخصیت اور تحریر میں نمایاں طور پر موجود رہی۔ اندرون اور بیرون ملک مشاعروں میں شرکت اور سفر کے حوالے سے ہم نے بہت سا وقت ایک ساتھ گزارا ہے، جس میں بہت سی شخصیات‘ کتابوں‘ رویوں اور ادبی موضوعات پر بحث و تمحیص بھی ہوئی۔
وہ عام زندگی میں جذباتی اور زود رنج ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات اور تعصبات کے حوالے سے قدرے ضدی بھی نظر آتا تھا جس کی بنیادی وجہ میرے نزدیک اس کی سوچ کا وہی مخصوص مضافاتی انداز تھا جس میں آپ ایک تصوراتی منفی رد عمل کی وجہ سے ایک طرح کی جوابی جارحیت کا شکار ہو جاتے ہیں مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت جلد اس کیفیت پر قابو پالیتا تھا۔درویشی اس کی فطرت تھی اور دنیا داری ضرورت اور مجبوری۔
——
یہ بھی پڑھیں : کوثر نیازی کا یومِ پیدائش
——
معاشی آسودگی بھی اس کی تنہائی پسندی اور معاشرتی کمٹ منٹ کے معمے کو حل نہ کر سکی اور یوں وہ محفلوں میں ہوتے ہوئے بھی پوری طرح سے ان کاحصہ نہ بن سکا… کچھ عرصہ قبل اس کی عیات کے لیے اس کے گھر جاناہوا تو باتوں باتوں میں یہ ذکر بھی درمیان میں آ گیا جس سے اندازہ ہوا کہ اس کوخود بھی اپنی اس ذہنی الجھن کا اچھی طرح سے احساس ہو گیا ہے مگر افسوس کہ وقت نے اس کو اس کے اظہار کے لیے مہلت نہیں دی اور وہ اس علالت سے جانبر نہ ہو سکا۔
اس کے کالموں کی سب سے نمایاں خوبی حسن بیان اور عبارت آرائی کے ساتھ ساتھ تصوف اور فلسفے کا وہ دلچسپ اور منفرد میل تھا جس سے وہ شخصیات ‘ واقعات اور تاثرات کا تجزیہ کرتا تھا‘ آگے چل کر یہی وصف اس کے ریڈیو اور ٹی وی پروگراموں میں بھی سامنے آیا کہ اس کی تحریر ہو یاگفتگو دونوں میں ایک شعری آہنگ رہتا ہے ۔ مثلاً اس طرح کے جملے کہ جو اندر سے صوفی نہ ہو وہ شاعر ہو ہی نہیں سکتا‘‘ یا ’’جب وہ بولتے ہیں تو دلوں کے دروازے کھولتے ہیں‘‘ یا نیم پاگل‘ پاگل سے مختلف ہوتاہے۔
بیک وقت خوش صوت بھی ہیں اور خوش خیال بھی… اپنے عزیز حماد غزنوی کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران اس نے محمود درویش اور جان کیٹس کو اپنے پسندیدہ ترین شاعر قرار دیتے ہوئے ترجمے اور ترجمانی کے موضوع پر جو باتیں کی وہ بہت گہری بھی ہیں اور خیال افروز بھی ۔ اسی طرح بڑھاپے کے ذکر میں ’’تھکن اور لگن‘‘ کی کیفیات پر بات کرتے ہوئے،اس کا سنایا ہوا کسی نامعلوم شاعر کا یہ ترجمہ شدہ جملہ بھی بہت اچھا لگا کہ ’’میں تھک گیا ہوں‘ میری درانتی کی نوک مٹی میں پھنس گئی ہے۔‘‘
اس نے ایک جگہ شاعری کو اپنی پہلی محبت قرار دیتے ہوئے یہ دلچسپ تبصرہ بھی کیا تھا کہ اس کے ساتھ بھی وہی ہوا جو پہلی محبت کے ساتھ ہوا کرتا ہے… اب آخر میں اس کی ایک بہت معروف غزل درج کرنے سے پہلے ایک اور کم گو مگر اچھے انسان پرویز ملک کے لیے بھی دعائے خیر ضروری ہے جو انھی دنوںمیں اس دار فانی سے پردہ کر گئے ہیں۔ مرحوم ان چند سیاستدانوں میں سے ایک تھے جو اس معرفت کی توقیر کی حفاظت اور پاسداری بھی کرنا جانتے تھے۔
——
منتخب کلام
——
سب کھیلتے ہیں آنکھ مچولی مگر یہاں
میں چھپ گیا ہوں کوئی مجھے ڈھونڈتا نہیں
اجمل ہوں وسط شہر میں اجڑا ہوا مکاں
پاس آ کے لحمہ بھربھی کوئی بیٹھتا نہیں
——
بکھرتی خاک میں کوئی خزانہ ڈھونڈھتی ہے
تھکی ہاری زمیں اپنا زمانہ ڈھونڈھتی ہے
شجر کٹتے چلے جاتے ہیں دل کی بستیوں میں
تری یادوں کی چڑیا آشیانہ ڈھونڈھتی ہے
یقیں کی سر زمیں ظاہر ہوئی اجڑے لہو میں
یہ ارض بے وطن اپنا ترانہ ڈھونڈھتی ہے
بھٹکتی ہے تجھے ملنے کی خواہش محفلوں میں
یہ خواہش خواہشوں میں آستانہ ڈھونڈھتی ہے
ترے غم کا خمار اترا ادھوری کیفیت میں
یہ کیفیت کوئی موسم پرانا ڈھونڈھتی ہے
بکھرتا ہوں جدائی کی اکیلی وسعتوں میں
یہ ویرانی مرے گھر میں ٹھکانہ ڈھونڈھتی ہے
مری مٹی سجائی جا رہی ہے آنگنوں میں
یہ رستوں پر تڑپنے کا بہانہ ڈھونڈھتی ہے
——
ہم اکیلے ہی سہی شہر میں کیا رکھتے تھے
دل میں جھانکو تو کئی شہر بسا رکھتے تھے
اب کسے دیکھنے بیٹھے ہو لئے درد کی ضو
اٹھ گئے لوگ جو آنکھوں میں حیا رکھتے تھے
اس طرح تازہ خداؤں سے پڑا ہے پالا
یہ بھی اب یاد نہیں ہے کہ خدا رکھتے تھے
چھین کر کس نے بکھیرا ہے شعاعوں کی طرح
رات کا درد زمانے سے بچا رکھتے تھے
لے گئیں جانے کہاں گرم ہوائیں ان کو
پھول سے لوگ جو دامن میں صبا رکھتے تھے
کل جو دیکھا تو وہ آنکھوں میں لئے پھرتا تھا
ہائے وہ چیز کہ ہم سب سے چھپا رکھتے تھے
تازہ زخموں سے چھلک اٹھیں پرانی ٹیسیں
ورنہ ہم درد کا احساس نیا رکھتے تھے
یہ جو روتے ہیں لئے آنکھ میں ٹوٹے تارے
اپنے چہرے پہ کبھی چاند سجا رکھتے تھے
آج وہ شہر خموشاں کی طرح ہیں اجملؔ
کل تلک شہر میں جو دھوم مچا رکھتے تھے
——
صبح وصل خواب ہے اجمل کسی محبوب چہرے کی طرح
شہر کے سارے مناظر ہیں کسی اندر کے جذبے کی طرح
تیرتی ہیں خون کے بحر قیامت میں فقط قربانیاں
اے دل بے تاب ظاہر ہو کسی روشن جزیرے کی طرح
حیرت تعبیر سے باہر نکل اے سبز خوابوں کی زمیں
اپنی آنکھوں میں بچھا خود کو کسی ہم راز خطے کی طرح
قریۂ عشق محمد میں نگاہ خاک سے دیکھے کوئی
ذرہ ذرہ ہو کے بکھرا ہوں کسی آباد رستے کی طرح
وقت اس کے نام سے منسوب ہو کر بے اماں ہے آج کل
زندگی عکس تمنا میں کسی سچے زمانے کی طرح
——
عہد غفلت میں مجھے مثل سحر بھیجا گیا
دیر تک سوئے ہوئے لوگوں کے گھر بھیجا گیا
کربلائے عشق میں تیری نظر کے سامنے
جسم کے نیزے پہ رکھ کر میرا سفر بھیجا گیا
روبرو ہے وہ میرے لیکن ہر ا ک لمحے کے بعد
ایسے لگتا ہے اسے بار دگر بھیجا گیا
زندگی اپنی بچھڑتی ساعتوں کا دائرہ
کرچی کرچی کر دیا اور دربدر بھیجا گیا
اب گلے سے لگ کے رونے کی روایت بھی گئی
شہر گریہ میں مجھے بے چشم تر بھیجا گیا
وہ مرا ہمراز تو بنتا نہیں پھر کیوں اسے
غم کے سب رستوں پہ میرا ہم سفر بھیجا گیا