اردوئے معلیٰ

کہاں لکھ پائے تری مدحتِ تامہ ، خامہ

تھام لیں گرچہ ہزار ابن قدامہ خامہ

 

خوشبوئے اسمِ گلِ قدس ہے آنے والی

کیوں نہ ہو حاملِ صد حاسۂ شامہ ، خامہ

 

مدحتِ قامتِ سرکار ہے جب پیشِ نظر

کیوں نہ لکھنے لگے آیاتِ قیامہ خامہ

 

اس کے طرے کو تکیں ٹوپیاں تھامے افلاک

تیری توصیف کا پہنے جو عمامہ خامہ

 

نعت نے کردیا من جملۂِ اصحابِ یمین

حشر میں ہم کو ہوا خلد کا نامہ ، خامہ

 

چہرۂ لوح ، ترے نورِ جبیں سے چمکا

تن پہ پہنے ہے ترے فیض کا جامہ خامہ

 

خلد میں بھی جو تمنائے ثنا گو پوچھی

یہی تکرار معظم رہی خامہ ! خامہ !

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ